مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کیلیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اسکی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
تاریخ رباعی کی طرح عربی شاعری میں مثنوی کا وجود بھی نہیں تھا اور یہ خاص ایران کی ایجاد ہے اور فارسی شاعری سے ہی ہندوستان میں آئی۔ رودکی کی مثنوی کلیلہ و دمنہ کا شمار فارسی کی قدیم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے اور انکے بعد بہت سے فارسی شعرا نے مثنویاں لکھیں لیکن دو مثنویاں ایسی ہیں جو دنیائے ادب میں زندہ و جاوید سمجھی جاتی ہیں، ایک فردوسی کی شہرہ آفاق مثنوی شاہنامہ اور دوسری مولانا رومی کی مثنوی معنوی۔ ان کے علاوہ نظامی گنجوی کا خمسہ، جو کہ پانچ مثنویوں کا مجموعہ ہے اور امیر خسرو کا خمسہ، جو کہ نظامی گجنوی کی مثنویوں کے جواب میں ہے، بھی مشہور مثنویاں ہیں۔ انکے علاوہ سعدی شیرازی اور مولانا جامی بھی فارسی مثنوی کے مشہور شاعر ہیں۔ علامہ اقبال نے خوبصورت فارسی مثنویاں لکھی ہیں جیسے جاوید نامہ، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی و دیگر۔ اردو میں مثنوی کی ابتداء دکن سے ہوئی، اور اس دور میں کثرت سے مثنویاں لکھی گئیں۔ دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔[حوالہ درکار ہے] اس قدیم درو کے دیگر مثنوی گو شعرا میں رسمی، نصرتی، سراج دکنی، ملا وجہی، محمد قلی قطب شاہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسکے بعد کے دور میں مشہور اردو مثنوی گو شعرا میں میر اثر، میر حسن، میر تقی میر، جرأت، دیا شنکر نسیم، نواب مرزا شوق، مومن خان مومن اور مرزا غالب وغیرہ شامل ہیں۔ جدید دور کے شعرا نے بھی اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے، گو اب اسکا چلن کم ہو گیا۔ اس دور کے شعرا میںالطاف حسین حالی، داغ، امیر مینائی، اقبال، حفیظ جالندھری، محسن کاکوری اور شوق قدوائی وغیرہ شامل ہیں۔ خصوصیات مثنوی کی ہیت تو متعین ہے ہی جسکا ذکر اوپر ہو چکا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایک معیاری اور اچھی مثنوی کیلیے کئی ایک چیزیں ضروری ہیں، جیسے
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن یا نواب مرزا شوق کی ایک مثنوی کا یہ شعر موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے اور کسی مثنوی کا یہ شعر لائے اس بت کو التجا کر کے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
مشہور اردو مثنویاں یوں تو تقریباً سبھی مشہور اردو شعرا نے مثنویاں کہی ہیں جسیا کہ اوپر تحریر ہے لیکن میر حسن کی مثنوی "سحر البیان" کو دو صدیاں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود اردو میں بہترین مثنوی سمجھا جاتا ہے۔ اس مثنوی میں عشق و محبت کا ایک عام اور سادہ سا قصہ بیان ہوا ہے جس میں کئی ایک مافوق الفطرت واقعات درج ہیں لیکن سادہ و سلیس زبان، جذبات نگاری، مصوری و منظر نگاری، اور تہذیب و ثقافت و معاشرت کے خوبصورت اظہار نے اس کو یہ درجۂ جلیلہ عطا کیا ہے۔ مقبولیت کے لحاظ سے اس کے بعد پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی "گلزارِ نسیم" ہے جو کہ اصل میں گل بکاؤلی کا قصہ ہے۔ اس مثنوی کی مقبولیت کی وجہ طرزِ ادا اور لکھنؤیت ہے۔ نواب مرزا شوق کی مثنوی "زہرِ عشق" بھی ایک مشہور لیکن بدنام مثنوی سمجھی جاتی ہے اور اسکی وجہ عریانی ہے۔ شوق کی دیگر مثہور مثنویوں میں "فریبِ عشق"، "لذتِ عشق" اور "بہارِ عشق" شامل ہیں۔ غالب کی مثنوی "قادر نامہ" کا گو اردو ادب میں وہ مقام نہیں ہے جو کہ مذکورہ بالا مثنویوں کا ہے لیکن یہ مثنوی اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ باقاعدہ ایک مقصد کیلیے لکھی گئی تھی۔ یہ مثنوی ایک طرح سے ایک فرہنگ ہے جس میں عربی، فارسی اور ہندی مشکل الفاظ کے اردو مترادف بتائے گئے ہیں اور بنیادی طور پر بچوں کیلیے لکھی گئی تھی۔ علامہ اقبال کی اردو مثنوی "ساقی نامہ" کا شمار بھی اردو ادب کی بہترین مثنویوں میں ہوتا ہے، جوش، روانی اور بے ساختگی میں یہ مثنوی اپنی مثال آپ ہے۔ حفیظ جالندھری کا "شاہ نامۂ اسلام"، اسلامی تاریخ پر مشتمل ہے جب کہ محسن کاکوری اپنی نعتیہ مثنویوں کیلیے مشہور ہیں۔ مثالیں میر حسن کی مثنوی"سحر البیان" کے چند اشعار تپِ ہجر گھر دل میں کرنے لگی دُرِ اشک سے چشم بھرنے لگی خفا زندگانی سے ہونے لگی بہانے سے جا جا کے سونے لگی نہ اگلا سا ہنسنا، نہ وہ بولنا نہ کھانا، نہ پینا، نہ لب کھولنا جہاں بیٹھنا، پھر نہ اٹھنا اسے محبت میں دن رات گھٹنا اسے نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش بھرا اس کے دل میں محبت کا جوش چمن پر نہ مائل، نہ گُل پر نظر وہی سامنے صورت آٹھوں پہر پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی "گلزارِ نسیم" کے کچھ اشعار منہ دھونے جو آنکھ ملتی ہوئی پُر آب وہ چشمِ حوض پر آئی دیکھا تو وہ گُل ہَوا ہُوا ہے کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے گھبرائی کہ ہیں کدھر گیا گل؟ جھنجھلائی کہ کون دے گیا جُل؟ ہے ہے مرا پھول لے گیا کون؟ ہے ہے مجھے خار دے گیا کون؟ مثنوی "زہرِ عشق" از نواب مرزا شوق کے اشعار ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام غمِ فرقت سے دل ہے بے آرام شکل دکھلا دے کبریا کے لیے بام پر آ ذرا خدا کے لیے اس محبت پہ ہو خدا کی مار جس نے یوں کر دیا مجھے ناچار سارے الفت نے کھو دیئے اوسان ورنہ یہ کہتی ہیں خدا کی شان اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے جس کو چاہے خدا ذلیل کرے غالب کی مثنوی "قادر نامہ" کے اشعار قادر اور اللہ اور یزداں، خدا ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام وہ رسول اللہ کا قائم مقام ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے جمع اس کی یاد رکھ اصحاب ہے آگ کا آتش اور آذر نام ہے اور انگارے کا اخگر نام ہے استخواں ہڈّی ہے اور ہے پوست کھال سگ ہے کتّا اور گیدڑ ہے شغال ہندی میں عقرب کا بچھّو نام ہے فارسی میں بھوں کا ابرو نام ہے بھیڑیا گرگ اور بکری گوسپند میش کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند اقبال کی مثنوی "ساقی نامہ" کے اشعار تمدن، تصوف، شريعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام حقيقت خرافات ميں کھو گئی يہ امت روايات ميں کھو گئی لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطيب مگر لذتِ شوق سے بے نصيب بياں اس کا منطق سے سلجھا ہوا لغت کے بکھيڑوں ميں الجھا ہوا وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق ميں مرد محبت ميں يکتا، حميت ميں فرد عجم کے خيالات ميں کھو گيا يہ سالک مقامات ميں کھو گيا بجھی عشق کی آگ، اندھير ہے مسلماں نہيں، راکھ کا ڈھير ہے شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے طابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقع کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نےکوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ( موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔) تفصیل شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کوئی بھی انسان ہو وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیا کے مشاہدے میں یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے اور سوچ میں گم رہتا ہے ہر انسان اپنی نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں کچھ لوگ اس کو لکھ کر یعنی نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون ناول نگاری افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مسجمہ سازی سنگ تراشی نقس نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگ کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لئے مخصوص ہے شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے اک تخلیق کی صورت میں اخذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے اس طرح تخلیق کار کو اطمینان ملتا ہے صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پہ بنے نقش و نگار آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے جس سے موجودہ زمانے کے لوگ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس دور میں لوگوں کے حالات زندگی اور اُنکا رہن سہن کیسا تھا یہی وجہ ہےکہ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے شاعری کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سب سے قدیم اور مشہور صنف غزل ہے غزل اک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو کہ شاعری کے ساتھ منسوب ہے جس کے اصولوں پہ فارسی اور پنجابی زبانوں میں شاعری لکھی جاتی ہے لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے مخصوص ہے شاعری کی مشہور اصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں میر تقی میر اسد اللہ غالب داغ دہلوی اور بہادر شاہ ظفر کے نام سرِفہرست ملتے ہیں تقسیمِ ہندستان کے بعد بہت سے مشہور شعرا کا تذکرہ ملتا ہے جن میں برصغیر پاک و ہند کے شعرا شامل ہیں ان شعرا میں سب سے مشہور علامہ محمد اقبال فیض احمد فیض حسرت موہانی ابنِ انشا حبیب جالب شکیب جلالی ناصر کاظمی محسن نقوی احمد فراز منیر نیازی پروین شاکر قتیل شفائی کے نام ملتے ہیں اجزائے شاعری شاعری میں مندرجہ ذیل اجزاء/تراکیب ہو سکتی ہیں۔ شعر شعر غزل کے اک حصے کو کہتے ہیں ۔ شعر کی سطر کو مصرہ کہا جاتا ہے، اشعار پہ مشتمل مجموعہ کو غزل کہتے ہیں ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولیٰ اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں غزل میں موجود اشعار کے مختلف نام ہیں پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصروں میں قافیہ اور ردیف استمال ہوتا ہے غزل کے آخری شعر کو مقطع کہا جاتا ہے جس کے پہلے مصرہ میں اکثر شاعر اپنا تخلص استمال کرتےہیں اور دوسرے مصرہ میں قافیہ کے ساتھ ردیف کا استمال کیا جاتا ہے مطلع اور مقطع کے درمیان موجود غزل کے تمام مصروں کو اشعار کہتے ہیں بیت الغزل غزل کے سب سے بہترین شعر کو بیت الغزل کہتے یہں۔ مثلاً: مجروح سلطان پوری کا ایک ملاحظہ کریں: میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا [1] غزل
فرد شاعری میں ایک اکیلے شعر کو فرد کہتے ہیں۔ حمد ہجو مصرعہ شعر کی ایک سطر کو مصرعہ کہتے ہیں۔ مطلع کسی بھی غزل کا (شاعری) میں پہلے شعر کو مطلع یا حسن مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مقطع مقطع کے معنی قطع کرنے کے ہیں چونکہ شاعر اپنی شاعری کا اختتامی شعر میں اپنا تخلص استعمال کرتا ہے، اسی آخری شعر کو اسے مقطع کہا جاتا ہے۔ مدح منقبت مثنوی مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کیلیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اسکی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔ مناجات مسدس مسدس چھے شعروں کے ایک قطعہ پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں۔ سب سے مشہور مسدس مسدس حالی ہے۔ نعت نظم نظم سے مراد ایسا صنف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ قافیہ اصطلاح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا ردیف سے پہلے آئے جیسے دمَن، چمَن، زمَن یا دِل، محفِل، قاتِل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔ ردیف قصیدہ قطعہ قطعہ شاعری کی ایک صنف ہے یہ چار مصروں پہ مشتمل ہوتا ہے اس کے پہلے مصرہ میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے لیکن دوسرے مصرے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے اس کے بعد اگر ردیف بھی لگا دیا جائے تو مصنف کی مرضی ہے ورنہ ردیف کے بغیر بھی قطعہ کے اصول مکمل ہو جاتے ہیں لیکن قافیہ ضروری ہے پہلے دو مصروں کے بعد تیسرا مصرہ آتا ہے اُس میں بھی قافیہ اور ردیف کی کوئی قید نہیں لیکن چوتھے اور آخری مصرہ میں دوسرے مصرہ کا ہم آواز قافیہ ضروری ہوتا ہے اور دوسرے مصرے کے مطابق اگر قافیہ کے ساتھ ردیف ہے تو وہی ریف چھوتھے مصرے میں قافیہ کے بعد اس طرح لکھا جاتا ہے اس کے علاوہ قطعہ اس طرح بھی لکھا جاتا ہے کہ پہلے دونوں مصروں میں قافیہ یا قافیے کے ساتھ ردیف لگایا جائے مگر تیرے مصرے کو قافیہ اور ردیف سے آزاد رکھا جائے مگر آخری مصر ے میں یعنی چھوتھے مصرہ میں پہلے دو مصروں کا ہم آواز قافیہ اور وہی دریف لگایا جاتا ہے رباعی رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے ، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض نے رباعی کے لیے چند معنوی و لفظی خصوصیات کو بھی لازم گردانا ہے۔ عروض کی مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی ، ترانہ ، اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی ، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔ سلام یہ نظم کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر شہداء کربلا کے مدح میں لکھی جاتی ہے۔ سہرا شادی کے موقع پر دلہا کے لئے گائے جانے والے گیت کو سہرا کا نام دیا جاتا ہے۔ تحت اللفظ بغیر ترنم کے شاعری کی ادائیگی کو تحت اللفظ کہا جاتا ہے۔ تخلص وہ قلمی مختصر نام جو شاعر یا ادیب اپنے اصل نام کی بجائے رکھ لیتے ہیں۔ وسوخت وسوخت محبوب کے بے وفائی یا لاپروائی کے بیان کے لئے لکھی جانے والی شاعری کو کہتے ہیں۔ گیت قوالی قوالی موسیقی کی ایک قسم ہے لیکن موسیقی کی اس قسم کو لوگوں تک پیغام پہنچانے اور اُس کے زیادہ اثر انداز ہونے کا اک منفرد اور انوکھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے قوالی کی زیادہ تر تاریخ برصغیر ہندوستان میں تصوف سے جا ملتی ہے کہا جاتا ہے قوالی کے سب پہلے خالق امیر خسرو تھے جن کا شمار صوفیوں میں ہوتا ہے ان کو آلاتِ موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے ہی قوالی کی بنیاد رکھی شعرا کے مطابق عام کہی گئی بات کی نسبت شاعری میں کہی گئی بات زیادہ دل پہ اثرانداز ہوتی ہے اور اسی طرح شاعری اگر آلات موسیتی کے ساتھ ملا کر موسیقی کی شکل میں ہو تو اور بھی زیادہ دل پہ اثر کرتی ہے اور لوگ اُسے توجہ سے سنتے ہیں لہذا تصوف کے دور میں قوالی کی بنیاد پڑی جس کا مقصد اشاعتِ اسلام تھا تاکہ لوگ صوفیائے کرام کے کلام کو یعنی انکی شاعری کو دلچسپی کے ساتھ سنیں اور اس کا اثر لیں تاریخ سے ملتا ہے قوالی صوفیائے کرام کے آستانوں پہ ہوا کرتی تھی جسے لوگ شوق سے آ کر سنا کرتے تھے یہی وجہ ہے آج بھی قوالی درباروں کے ساتھ منسوب ہے قوالی پڑھنے والے کو قوال کہا جاتا ہے سب سے زیادہ مشہور قوال برضغیر پاک و ہند میں ملتے ہیں جن میں سب سے مشہور قوالوں کا تعلق پاکستان سے ہے پاکستان کی سر زمین نے بہت سے مشہور قوالوں کو جنم دیا جن میں فتح علی خان نصرت فتح علی غلام فرید مقبول صابری بدر میاں داد عزیز میاں قوال کا نام سرفہرست ملتا ہے تلمیح Urdu medium computer science
بِسْمِ اللہِ الرّٰحْمَن الرّٰحِیْمِ سوال نمبر-: 1 کمپیوٹر کی تعریف کریں ؟ نیز کمپیوٹر کے فوائد اور نقصانات مختصراً بیان کریں۔ (What is Computer? What are its Benefits & Drawbacks?) جواب : کمپیوٹر کی تعریف -: کمپیوٹر ایک الیکٹرانک آلہ یا مشین ہے۔ جس کا کام ڈیٹا کوحاصل کرنا ، اس پر عمل کرنا ، اس کا تجزیہ کرنا اور ہماری دی ہوئی ہدایات کے مطابق عمل کرنا ہے۔ کمپیوٹر جدید دور کا ایک مفید ترین اور ہمہ گیر اہمیت کا حامل آلہ ہے۔ کمپیوٹر نے بین الاقوامی تجارت ، صنعتی پیداوار ، گھریلو زندگی ، تفریح کے ذرائع، فضائی تحقیق اور تجسّس ، صحت سے متعلق احتیاط ، تعلیم و تعلّم ، مواصلاتی نظام اور سائنسی تحقیق پر گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ کمپیوٹر کے فوائد اور نقصانات یا خوبیاں اور خامیاں مندرجہ ذیل ہیں کمپیوٹر کے فوائد (Benefits) -: تیز رفتار(High Speed) ‘ درستگی(Accuracy) ‘ زیادہ سٹوریج (Large Storage) ‘ بوریت کا احساس (Diligence) ‘ تھکاؤٹ(Tireless) ‘ تابعدار(Obedient) ‘ اورکام کی نوعیت(Variety of tasks) ۔ کمپیوٹر کے نقصانات-:(Drawbacks)ذھانت سے عاری(No Inteligence) ‘ تفصیل کی ضرورت (Needs Details) ‘ مہنگا (Expensive) ‘ زیادہ مہارت (High Skill) ‘ جسمانی کمزوری (Physical threats) ۔ سوال نمبر-: 2کمپیوٹر کے اقسام (Types) تفصیلاً بیان کریں؟ کمپیوٹر کے اقسام -: کمپیوٹرکے مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں۔ -1 اینالاگ کمپیوٹر -2 ڈیجیٹل کمپیوٹر -3 ہائی بریڈکمپیوٹر -1 اینالاگ کمپیوٹر -:( Aanlog Computer ) ا ینالاگ کمپیوٹر پہلا کمپیوٹر ہے۔ جس نے جدید ڈیجیٹل کمپیوٹرکی راہیں ہموار کی۔ ا ینالاگ کمپیوٹر ڈیٹا کو لہروں کی صورت میں حاصل کرتا ہے۔ اینالاگ ڈیٹا فاصلہ ،سپیڈ ، دباؤ ، ٹمپریچر ، مائع یا گیس کے بہاؤ کی شرح ، کرنٹ، وولٹیج اور طبعی مقداروں کی شدت پر مشتمل ہوتاہے۔ا نالاگ کمپیوٹرانجینئرنگ اور سائنسی تحقیق کیلئے زیادہ تر استعمال کئے جاتے ہیں۔یہ کمپیوٹر بہت تیز ہوتے ہیں۔ -2 ڈیجیٹل کمپیوٹر-:( Digital Computer ) ڈیجیٹل کمپیوٹر اعداد ، حروف اور اسپیشل علامات کے ذرئعے کام کرتے ہیں۔یعنیڈیجیٹل کمپیوٹرکو ڈیٹا ہندسوں کی شکل میں مہیا کیا جاتا ہے۔ جدید ڈیجیٹل کمپیوٹر بہت سے سائزوں اور مختلف شکلوں میں دستیاب ہیں۔عام طور پر سکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں، دفاتر اور گھروں میں ڈیجیٹل کمپیوٹراستعمال کئے جاتے ہیں۔ڈیجیٹل کمپیوٹر میں بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا اور معلومات کوسٹور کیا جاسکتاہیں۔ڈیجیٹل کمپیوٹر کا تجزیہ بہت درست ہوتاہے۔ -3 ہائی بریڈکمپیوٹر-:( Hybrid Computer ) اینالاگ کمپیوٹر کی تیز رفتاری اور ڈیجیٹل کمپیوٹرکی سٹوریج اور درستگی کو یکجا کر کے ایک بہترین خصوصیت والا کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے۔جسے ہائی بریڈکمپیو کہا جاتا ہے یہ کمپیو ٹر ہسپتالوں میں میڈیکل تفتیش کیلئے ، فضائی جہازوں ، میزائلوں اور فوجی نوعیت کے اسلحہ جات وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ اینالاگ اور ڈیجیٹل کمپیوٹرمیں بنیادی فرق-: اینالاگ کمپیوٹرکو ڈیٹا لہروں کی صورت میں جبکہ ڈیجیٹل کمپیوٹر کو ڈیٹا ہندسوں کی صورت مہیا کیا جاتا ہے۔ اینالاگ کمپیوٹرمیں پیمائش جبکہ ڈیجیٹل میں مقداریں شمار کی جاتی ہے۔ اینالاگ کمپیوٹربہت تیز جبکہ ڈیجیٹل نہایت درستگی سے کام کرتاہے۔ اینالاگ کمپیوٹرکی میموری محدود جبکہ ڈیجیٹل کمپیوٹر کی میموری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سوال نمبر-: 3 چارلس بابیج کے اینا لیٹیکل انجن کے مختلف یونٹس کو بیان کیجئے؟ جواب- : چارلس بابیج (Charles Babbage) نے1812 ء میں پہلے پہل ایک ایسے ڈیفرینس انجن کا تصورپیش کیا۔جو 20ہندسوں تک صیحح جواب نکالتا تھا۔ اور پرنٹ آؤٹ بھی مہیا کرتاتھا۔20سال محنت کرنے کے بعد بابیج کی اس کام میں دلچسپی کم ہو گئی۔اس کے اس نے اپنی بقیہ زندگی اینالیٹیکل انجن(Analytical Engine) نامی ایک نئی مشین بنانے کے پروجیکٹ پر صرف کردی۔یہ مشین مکمل طور پر خودکار تھی۔اور اس کو بہت سے حسابی کاموں کیلئے پروگرام بھی کیا جا سکتا تھا۔آج کل کے کمپیوٹر میں بابیج کے ڈیزائن کردہ مشین کی بہت سی خصوصیات شامل ہیں۔ چارلس بابیج کا اینالیٹیکل انجن مندرجہ ذیل پانچ یونٹس پر مشتمل تھا: -: (A) سٹور (Store) -: اس حصہ میں مشین میں فیڈ کئے جانے والے اعداد اور ہدایات سٹور رہتی تھیں۔ -: (B) مل -: (Mill) یہ خود کار ارتھ میٹک یونٹ تھا۔ جو کہ گراریوں اور پہیوں کے گھومنے سے ارتھ میٹک سے متعلق تمام عوام کو پایہء تکمیل تک پہنچتا تھا۔ -: (C) کنٹرول -: (Control) یہ یونٹ دوسرے تمام یونٹوں کی نگرانی کرتا تھا اور ان کو کام کرنے کی ہدایات بھی دیتا تھا۔ -: (D) ان پٹ -: (Input) یہ ان پٹ یونٹ سٹور کو ڈیٹا اور ہدایات مہیا کرتا تھا۔اور یہ یونٹ سوراخ شدہ کارڈ کی شکل میں ہوتا تھا۔ -: (E) آؤٹ پٹ-: (Out put) حسابی عمل کے بعد حاصل ہونے والے نتیجہ کوڈسپلے کرتا تھا۔ ان عوامل یا یونٹس کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ کہ چارلس بابیج نے جدید کمپیوٹرکا سنگِ بنیاد رکھا ۔سوال نمبر:4کمپیوٹر کے ادوار (Generations of Computer)بیان کیجئے؟ جواب- : کمپیوٹر کوہم پانچ ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔ کمپیو ٹر کا پہلا د ور ( 1959 - 1942 ) پہلے دور کے کمپیوٹروں میں ویکوم ٹیوبز جوکہ تیز رفتار سوئچ کے طور پر کام کرتی تھیں استعمال کئے گئے۔ 1943ء میں پنسل وانیا یونیورسٹی میں اینی ئک (ENIAC) الیکٹرانک نیومیریکل انٹی گریٹر اینڈ کیلکولیٹر کو تیار کیا گیا ۔1949 ء میں پہلا کمپیوٹر ایڈسیک (EDSAC) بنایا گیا۔پھر 1952 ء میں دوسرا کمپیوٹر ایڈویک (EDVAC) بنایا گیا۔اسکے بعد 1951 ء میں اس سے اچھا کمپیوٹر یونیویک(UNIVAC-1) 1 یعنی یونیورسل آٹومیٹک کمپیوٹر کام کرنے لگی۔ پہلے دور کے کمپیوٹرمیں ذیل خامیاں تھیں- : (1) بہت بڑا سائز ۔ (2) سست رفتار ۔ (3) اعتبار کا کم درجہ۔ (4) زیادہ پاور کا خرچ ۔ (5) مشکل مرمت ۔ کمپیو ٹر کا دوسرا د ور 1965 - 1959)ء( ٹرانزسٹر ٹیکنالوجی کی آمد سے کمپیوٹر کا دوسرا دور معرض وجود میں آیا۔ویکوم ٹیوب کی بانسبت ٹرانز سٹر چھوٹے ، تیز رفتار اور کم خرچ ہوتے ہیں۔ لہذا ٹرانزسٹر کو استعمال کرتے ہوئے ایسے کمپیوٹر بنائے گئے۔ جو مائیکرو سیکنڈ میں اپنا کام مکمل کر لیتے تھے۔ ان کمپیوٹروں میں پہلی بار ہائی لیول لینگوئجز استعمال کی گئی۔مثلاً فورٹران ، کوبول اور بیسک وغیرہ۔ دوسرے دور کے کمپیوٹروں میں ہنی ویل ، آئی سی ایل اور جی ای636 , 645 وغیرہ شامل ہیں۔ کمپیو ٹر کا تیسرا د ور 1972 - 1965 )ء( 60 کے عشرہ میں آئی سی (IC) یعنی انٹی گریٹڈ سرکٹ کی آمد سے مائیکرو الیکٹرانکس کا دور شروع ہوا۔لہذا آئی سی کے استعمال سے کمپیوٹر کی جسامت ، قیمت اور پاور کی خرچ میں بہت زیادہ کمی آ گئی ۔ اس طرح ان کمپیوٹروں میں ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہو گئی ۔ او ر انکی کارکردگی بھی زیادہ قابل اعتبار ہو گئی۔ اس دور کے کمپیوٹروں میں IBM-360 کا سیریز ، ICL-1900 اور PDP-8 کا سیریز وغیرہ شامل ہے۔ کمپیو ٹر کا چوتھا د ور 1980 - 1972 )ء( مائیکرو پروسیسر کی ایجاد سے بہت کم قیمت کے کمپیوٹر بننا شروع ہوگئے۔اور انکی سائز میں بھی بہت کمی آگئی۔ امریکہ کے انٹل(Intel) کارپوریشن نے 1971 ء میں پہلا مائیکرو پروسیسر انٹل 4004 تیار کیا ۔یہ 4 بٹ کا مائیکرو پروسیسر تھا۔پھر 1973ء میں 8بٹ کا مائیکرو پروسیسر تیار کیا ۔ اس کے بعد کلائیو سنکلیر (Clive Sinclair) نے ZX-80 اور ZX-81 کمپیوٹر بہت کم قیمت پر تیار کر کے پرسنل کمپیوٹر(PC) کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔ اس دور کا ایک دوسرا کمپیوٹر ایپل (Apple) جو 1976ء میں تیار کیا گیا۔ ان کے علاوہ کموڈور ، IBM-3033,4300 ، سائبر205 ، شارپ PC-1211 وغیرہ اہم کمپیوٹروں میں شامل ہیں۔ کمپیو ٹر کا پانچوا ں د ور 1980 ء ۔ اور اس کے بعد -: چوتھے دور تک کمپیوٹرمیں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ کمپیوٹر سوچنے کی قوت سے عاری تھے۔اور یہ بات سائنسدانوں کیلئے ایک عرصہ سے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ کمپیوٹر کے پانچویں دور میں اس طرف قدم بڑھایا گیا۔اب کمپیوٹرز کو انسانوں کی سوچنے ، استدلال کرنے ، سیکھنے نتیجہ اخذ کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کی جائیں گی۔ان مشینوں میں (VLSI) سرکٹس کی ایک بہت بڑی تعداد استعمال کی جائے گی۔اس طرح مصنوعی ذہانت اور ایکسپرٹ سسٹم پانچویں دور کے کمپیوٹرز کے اہم حصے ہوں گے سوال نمبر-: 5 کمپیوٹرز کو کتنے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے ؟ ہر ایک کی تعریف کر کے مثالیں دیجئے۔ یا ڈیجیٹل کمپیوٹر کی اقسام بیان کریں۔ یا سائز کے لحاظ سے کمپیوٹر کی درجہ بندی بیان کریں ؟ جواب -: کمپیوٹرز کو چار مخصوس گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔(1) سُپر کمپیوٹر (2) مین فریم کمپیوٹر۔ (3) منی کمپیوٹر۔ (4) مائیکرو کمپیوٹر۔ (1) سُپر کمپیوٹر-: سُپر کمپیوٹر بہت پیچیدہ مسائل حل کرنے کیلئے 1980 ء میں تیار کئے گئے۔یہ سب سے مہنگے اور تیز ترین کمپیوٹر ہیں۔ یہ کمپیوٹر ہوائی جہاز کے ڈیزائن ، نیوکلائی ریسرچ ، سائنسی لیبارٹری ، اور بہت بڑے بڑے صنعتی اداروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ کرے ٹو(Cray-II) اور کنٹرول ڈیٹا سائیبر 205 سُپر کمپیوٹر کی مثالیں ہیں۔ (2) مین فریم یا میکرو کمپیوٹر-: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ یہ بہت بڑے سائز کے کمپیوٹر ہوتے ہیں۔ اور اس کے پورے سسٹم کو سیٹ کرنے کیلئے کئی بڑے بڑے کمروں کی ضرورت پڑتی ہیں۔ یہ کمپیوٹر بہت تیز ہوتے ہیں۔ اور ان کی میموری بہت بڑی ہوتی ہیں۔ یہ ان اداروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جہاں بہت سے لوگ ایک ساتھ کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہو۔مثلاً سرکاری ادارے ، بینک ،ہوائی کمپنیاں وغیرہ۔ بروف 7800B-(Burrough) ، آئی بی ایم 4341 مین فریم کمپیوٹر کی مثالیں ہیں (3) منی کمپیوٹر-: منی کمپیوٹر چھوٹے لیکن بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کو تجارت ، تعلیم اور گورنمنٹ کے ادارو ں میں استعمال کیا جاتا ہیں ڈیجیٹل ایکوپمنٹ کارپوریشن نے ان کو 1960 کے عشرہ میں متعارف کرایا۔ آئی بی ایم کارپوریشن ، ڈیٹا جنرل کارپوریشن اور پرائم کمپیوٹرز منی کمپیوٹر بناتی ہیں۔ (4) مائیکروکمپیوٹر-: مائیکرو کمپیوٹر نسبتاً کم قیمت والا کمپیوٹر ہے۔ جس کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہیں۔یہ 1970ء میں مائیکرو پروسیسر بننے کے نتیجہ میں تیار ہوا۔ یہ قیمت میں بہت کم اور سائز میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ان کو پرسنل کمپیوٹر (PC)بھی کہا جاتاہے۔اس لئے ان ہر جگہ مثلاً سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، سرکاری دفاتر ، بینکوں اور گھروں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔آئی بی ایم ،ڈیل ، کم پیک اور انٹل کے پی سی۔ ایس 2/ اور ایپل میکن ٹوش وغیرہ مائیکرو کمپیوٹر کی چند مثالیں ہیں۔ سوال نمبر-: 6 کمپیوٹرپروگرام کی تعریف کریں ؟ جواب-: کمپیوٹرپروگرام ہدایت دینے کا وہ عمل ہے۔جس کے تحت کمپیوٹر اپنا کام سرانجام دیتاہے۔اسطرح پررگرامنگ کمپیوٹروں سے رابطہ کا ایک طریقہ ہے۔ ابتدائی پروگرام مشین لینگوئج میں تیا ر کیئے گئے۔اسمیں بائنری کوڈ کو استعمال کیا گیاجو کہ صرف دو اعداد 0 اور 1 پر مشتمل ہوتاہے۔ہدایت دینے کا یہ طریقہ بہت مشکل اور پیچیدہ تھا ۔اسلئے پروگرام بنانے والوں نے مشین لینگوئج کے بجائے اسمبلی لینگوئج میں پروگرام تیا ر کرنا شروع کر دئیے۔دوسری پررگرامنگ لینگوئجزجو کہ آسانی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ہائی لیو ل لینگوئجز ہیں جیسے بیسک ، فورٹران، کوبول ، پاسکل اور سی و C ++ وغیرہ۔ اس طرح کمپیوٹر لینگوئجز کے تین اقسام بیان ہوئے -:1 مشین لینگوئج -:2 اسمبلی لینگوئج -:3 سمبالک یا ہائی لیول لینگوئج۔ سوال نمبر-: 7 مشین اور اسمبلی لینگوئجز کو کیوں لو لیول لینگوئجز کہا جاتا ہے ؟ جواب -: مشین لینگوئج -: بائنری کوڈ میں دی گئی ہدایات کے سیٹ کو مشین لینگوئج کہتے ہیں۔کمپیوٹر کا CPU اسکو براہ راست سمجھتاہے۔ابتدائی پروگرام مشین لینگوئج میں تیا ر کیئے گئے۔اسمیں بائنری کوڈ کو استعمال کیا جاتا ہے جو کہ صرف دو اعداد 0 اور 1 پر مشتمل ہوتاہے۔ مشین لینگوئج میں دی گئی ہدایت کے بنیادی طور پر دو حصے ہوتے ہیں پہلے حصہ کو کمانڈ یا آپریشن کہتے ہیں۔ اور دوسرا حصہ ایک یا دو آپرینڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسمبلی لینگوئج -: اسمبلی لینگوئج ایک لو لیول لینگوئج ہے کیونکہ یہ پرابلم کی لینگوئج کے مقابلہ میں کمپیوٹر کی مشین کوڈ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اسمیں تیار کئے گئے پروگرام کو مشین لینگوئج میں تبدیل ہونے کیلئے ایک اسمبلر سے گزرنا پڑتاہے۔ اسمبلی لینگوئج میں مشین لینگوئج کے تمام آپریشن کوڈزکوالفاظ اور علامتوں سے جن کو نی مونک کوڈز کہتے ہیں بدل دئے جاتے ہیں مثال کے طور پر Stop Process کیلئے آپریشن کوڈ (000 000) جبکہ نی مونک کوڈ(HLT) کو استعمال کیاجاتا ہے۔ اس طرحAdditionکیلئے آپریشن کوڈ (000 010) جبکہ نی مونک کوڈ (ADD) اورMultiplyآپریشن کوڈ (000 100) جبکہ نی مونک کوڈ(MUL) استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال نمبر-: 8 لو لیول لینگوئج اور ہائی لیول لینگوئج کے درمیان فرق بیان کریں؟ جواب -: کمپیوٹر کی بنیادی لینگوئج لو(Low) لیول لینگوئج ہے۔ اسمیں ہدایات کو بائنری کوڈ یا علامتی کوڈ میں دیئے جاتے ہیں۔ مشین لینگوئج اور اسمبلی لینگوئج لولیول لینگوئجز ہیں۔ دوسری پروگرامنگ لینگوئج ہائی (High) لیول لینگوئج ہے۔ مشین لینگوئج کو سمجھنے میں درپیش مشکلات کو انگریزی الفاظ سے علامتی کوڈ بنا کر حل کیا گیا۔ لھذا یہ زبان پروگرام لکھنے میں بہم آسانی پہنچاتی ہیں۔ایک ہائی لیول لینگوئج میں لکھا ہوا پروگرام اسی کمپیوٹر پر رن (Run) کیا جاتاہے۔ جسمیں اس لینگوئج کا کمپائلر(Compiler) یا ٹرانسلیٹر موجود ہو۔ کمپائلر ایک سسٹم سافٹ وئیر پروگرام ہوتا ہے جو ایک ہائی لیول لینگوئج میں لکھے ہوئے پروگرام کا کمپیوٹر کے قابل فہم لو لیول لینگوئج میں ترجمہ کرنے کیلئے استعمال کیا جا تا ہے۔ زیادہ مقبول ہائی لیول لینگوئجز میں سے کچھ درج ذیل ہیں: بیسک(BASIC) ، فورٹران(Fortron) ، کوبول(COBOL) ُ پاسکل (Pascal) ، سی (C) ، سی ++ (C++) اور جاوا (Java) وغیرہ۔ سوال نمبر-: 9 مندرجہ ذیل ہائی لیول لینگوئجز پر نوٹ لکھئے : بیسک ، فورٹران ، کوبول ، پاسکل اور سی جواب -: -:1 بیسک (BASIC) BASIC -: بیسک(Beginners All-Purpose Symbolic Instruction Code) کامخفف ہے۔ یہ ابتدائی درجے کے پروگراموں کے لئے ڈیزائن کی گئی اور سب سے پہلے 1964 ء میں متعارف کرائی گئی۔یہ لینگوئج انگریزی زبان سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔ اوریہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اور سب سے آسانی سے سیکھی جانے والی ہائی لیول لینگوئج ہے اب تک اس کے مختلف ورژن پیش کئے جا چکے ہیں۔ انمیں جی ڈبلیو بیسک ، کوئیک بیسک، ٹربو بیسک اور وژوئل بیسک وغیرہ شامل ہیں۔ -: 2 فورٹران (FORmula TRANslation - FORTRAN) -: فورٹران آئی بی ایم کمپیوٹرز کیلئے 1957ء میں بنائی گئی۔ یہ ریاضی ، سائنس اور انجینئرنگ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تیار کی گئی۔ یہ ایک مستند ہائی لیول لینگوئج ہے۔ کئی مرتبہ اس کی نظر ثانی کی گئی۔ اس کا ایک نظر ثانی شدہ نسخہ فورٹران 37 ہے جو کہ 1978 ء میں شائع کیا گیا۔ فورٹران اُن ابتدائی لینگوئجز میں سے ہے۔ جنہوں نے ماڈولر پروگرامنگ کا تصور متعارف کرایا۔ کوبول(COBOL) -:کوبول (COmmon Business Oriented Language) ایک مستند ہائی لیول لینگوئج ہے جو کہ 1959 ء میں تیا ر کی گئی ۔ یہ جنرل ،کمرشل اور بزنس کے مقاصد کے لئے بنائی گئی۔ کوبول وہ ہائی لیول لینگوئج ہے جو کثیر تعداد کے ڈیٹا کو ہنڈل کرتی ہیں۔ -: 4 پاسکل(PASCAL) -: یہ ایک پروگرامنگ لینگوئج ہے۔ جس کا نام فرانسیسی حساب دان بیلز پاسکل (BlaisePascal) کے نام پر رکھا گیا ۔ یہ 1970ء میں سٹرکچرڈ پروگرامنگ کے تصور پر تیار کی گئی ۔ اور 1971ء میں اس کا استعمال شروع کیا گیا یہ بھی ایک ہائی لیول لینگوئج ہے جو کمپیوٹر سائنس میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ -: 5 سی (C) -: سی ایک پروگرامنگ لینگوئج کا پورا نام ہے۔ جس کو 1974 ء میں برین کارنیگن اور ڈینس ریچی نے تیا ر کیا۔ آپریٹنگ سسٹم لکھنے کے لیے یہ پروگرامز کی ایک دل پسند لینگوئج ہے۔ سی میں لکھے گئے پرورام تیز اور قابل عمل ہوتے ہیں۔یہ ایک لحاظ سے ہائی لیول اور اسمبلی لینگوئج کا امتزاج ہے۔اس لئے اسے مڈل لینگوئج بھی کہا جا سکتاہے۔ سی(C) لینگوئج کے مختلف ورژن ہیں مثلاً C , C+ , C++ , وغیرہ۔ سوال -:10 لینگوئج پروسیسرز(Language Processors) سے کیا مراد ہے ؟ اس کے اقسام بیان کریں۔ OR ( What is Translation Software and what are its Types ) جواب -: لینگوئج پروسیسر ایک ٹرانسلیشن سافٹ وئیر ہے۔ جس کے ذریعہ کمپیوٹر دی گئی ہدایات کو سمجھتا ہے۔ اور پھر ان کے مطابق کام کرتا ہے ۔چونکہ کمپیوٹر صرف مشین لینگوئج کو ہی سمجھ سکتا ہے۔ اور مشین کوڈ میں پروگرام لکھنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے لینگوئج پروسیسر کا استعمال بہت ضروری ہے۔ تاکہ یہ اس لینگوئج کو مشین لینگوئج میں تبدیل کر دے۔ لینگوئج پروسیسریا ٹرانسلیشن سافٹ وئیر تین اقسام کے ہوتے ہیں۔ -: 1 اسمبلر (Assemblers) -: یہ ایک سسٹم سافٹ وئیر ہے۔ جو کہ از خود اسمبلی لینگوئج کو اس کی متبادل بائنری مشین لینگوئج میں تبدیل کر دیتاہے۔ -: 2 کمپائلر (Compiler) -: یہ بھی ایک سسٹم سافٹ وئیر ہے جو کہ از خود کسی ہائی لیول لینگوئج میں لکھے گئے پروگرام اس کے متوازی لو لیول مشین لینگوئج میں تبدیل کر دیتاہے۔ایک کمپائلر اس سورس پروگرام کا ترجمہ کر سکتاہے۔جس کیلئے وہ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ Source Pro > Compiler > Object Program > CPU for Execution > Output Result. -: 3 انٹر پریٹر (Interpreter) -: انٹر پریٹر ایک دوسرے قسم کا مترجم ہے۔ جو کہ ہائی لیول لینگوئج میں لکھے ہوئے پروگرام کے ہر بیان کو مشین کوڈ میں تبدیل کر دیتاہے۔ اور اگلے بیان کے ترجمہ سے پہلے اس پر عمل درآمد کر لیتاہے۔ اسی وجہ سے یہ کمپائلر سے مختلف ہے۔ Source Statement> Inerprerer> Machine Code> CPU for Execution> Output Result. باب نمبر2 کمپیوٹرکے حصے(Computer Components) سوال نمبر-: 1 کمپیوٹر کے کتنے لائنز یا فیلڈ ہیں۔مثالیں دیکر بیان کریں۔ یا کمپیوٹر ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر میں فرق بیان کریں۔ یا کمپیوٹر سسٹم کو کتنے حصوں میں تقسیم کیاگیا ہیں۔ جواب -: کمپیوٹر سسٹم کی اپنی سائز ، شکل، سپیڈ، کارکردگی، اہلیت، قیمت اور اطلاقات کے لحاظ سے بہت سی قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک کمپیوٹر سسٹم کو ہم دو خاص حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔جن کو رڈ ویئر اور سافٹ ویئر کہا جاتاہے۔ کمپیوٹر ہارڈ ویئر (Computer Hardware) -: کمپیوٹر کے کل پُرزے کو ہارڈ ویئر کہتے ہیں۔ یعنی ایسے وآلات جِسے ہم ہاتھوں کے ذریعے چھو سکتے ہیں جو وزن رکھتے ہو، جگہ گھرتے ہو، اور ٹھوس حالت میں ہو ہارڈ ویئر کہلاتے ہیں۔ مثلاً کی بورڈ ، ماؤس، سی پی یو ، مانیٹر ، پرینٹر ، سکینر اور سپیکر، ماڈیم وغیرہ۔ کمپیوٹرسافٹ ویئر (Computer Software) -: کمپیوٹر کے پروگرامز جس کی ہارڈویئر کو چلانے کیلئے ضرورت پڑتی ہے۔ سافت ویئر کہلاتے ہیں۔یعنی ہدایات کا وہ سیٹ جسکے ذریعے کمپیوٹر کو بتایا جاتا ہے کہ اس نے کیا کرناہے۔مثلاً ڈوس ، ونڈوز ، ایم ایس آفس ، ان پیج وغیرہ۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر کو مزید سسٹم سافٹ ویئر اور اپلی کیشن(اطلاقی) سافٹ ویئر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ -:(a) سسٹم سافٹ ویئر : ایک کمپیوٹننگ سسٹم کے آپریشن کو کنٹرول کرنے کے لئے کچھ فنکشنز ڈیزائن کیے جاتے ہیں ۔ پروگرام کا وہ سیٹ جو کہ ان فنکشنز کی تعمیل کرواتا ہے سسٹم سافٹ ویئر کہلا تا ہے۔یہ ایک عام پروگرام ہے جو کہ استعمال کنندہ کو اپنا اطلاقی پروگرام لکھنے میں مدد کرتاہے اور اس کے بغیر کمپیوٹر سے رابطہ قائم کرنا ممکن نہیں ہے -:(b) اپلی کیشن یا اطلاقی سافٹ ویئر : وہ تیا ر شدہ پیکیجیز یا پروگرامز جو کہ سسٹم سافٹ ویئر میں لکھے جاتے ہیں یا استعمال کئے جا تے ہیں۔ مثلاً ورڈ پرسیسر، سپریڈ شیٹس ، ڈیٹا منجمنٹ سسٹم ، ڈرافٹنگ اور کمیونیکیشن پیکیجز وغیرہ اطلاقی سافٹ ویئر کی چند مثالیں ہیں۔ سوال نمبر -:2 ایک ڈیجیٹل کمپیوٹر کتنے حصوں پرمشتمل ہوتا ہیں؟ یا کمپیوٹر کے اہم یونٹس پر نوٹ لکھئے۔ جواب -: عام طور سے ایک ڈیجیٹل کمپیوٹرمندرجہ ذیل چار اہم یونٹس پر مشتمل ہوتاہیں : -:1 ان پُٹ یونٹ : 2 آؤٹ پُٹ یونٹ۔ -:3 کنٹرول پروسیسنگ یونٹ -:4 میموری یونٹ(Auxiliary)۔ -:1 ان پُٹ یونٹ -:(Input Unit) ایسے آلات جس کے ذریعے سے ہم کمپیوٹر کو ڈیٹا یا معلومات فراہم کرتے ہیں ان پُٹ یونٹ کہلاتا ہے۔ مثلاکی بورڈ ‘ ماؤس ‘ جوئے سٹک ‘ لائٹ پین ‘ سکینر ‘ سکنڈری سٹوریج ڈیوائسز جیسے فلاپی ڈسک و میگنٹک ٹیپس اور مائیک وغیرہ۔ ان پٹ یونٹ یوزر اور مشین کے درمیان انٹرفیس کا کا م کرتاہے۔ -:2 اؤٹ پُٹ یونٹ -:(Output Unit) یہ بھی ان پٹ یونٹ کی طرح یوزر اور مشین کے درمیان انٹر فیس مہیا کرتا ہے۔اور یہ سی پی یو سے بائنری بیٹس کی صورت میں ڈیٹا حاصل کرتا ہے۔ اور گرافیکل ‘ آڈیو اور ویژول کی صورت میں منتقل کر کے یوزر کوڈسپلے کرتاہے۔ مختصر یہ کہ کمپیوٹر کے ساتھ استعمال ہونے والے بیرونی آلات جن کی مدد سے انفارمیشن یا نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔آؤٹ پُٹ یونٹ کہلاتا ہے۔مثلاً مانیٹر ‘ پرنٹرز ‘ پلا ٹرز ‘ سپیکر ‘ سی ڈیز ‘ فلاپی ڈرائیوز اور ہارڈڈسک وغیرہ۔ -:3 سنٹرل پروسیسنگ یونٹ(CPU) -: سنٹرل پروسیسنگ یونٹ(CPU) کمپیوٹر کے میموری سسٹم یونٹ کے اندرونی حصہ میں نصب ہوتاہے۔ یہ کمپیوٹر کا دماغ ہوتاہے۔ یہ سسٹم کے اندر ہونے والے تمام حسابی ' اینالیٹیکل اور لاجیکل فنکشنز کی تکمیل کرتاہے ان کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ -:1 ارتھ میٹک اینڈ لاج یونٹ(ALU) ۔ -:2 کنٹرول یونٹ (CU) -: 3 مین میموری(Main Memory) ۔ -:4 مین میموری یونٹ-: مین میموری کمپیوٹر کی پرائمری سٹوریج یا (Auxiliary) سٹوریج ہے جس تک CPU کو براہ راست رسائی حاصل رہتی ہے۔ مین میموری ان پٹ یونٹ سے ڈیٹا اور ہدایات وصول کرتی ہے۔ اور CPU کے دوسرے حصوں سے ڈیٹا کا تبادلہ کرتی ہے اور انکو ہدایات مہیا کرتی ہے۔سٹوریج کی مختلف قسمیں دستیاب ہیں جن میں RAM , DRAM , SRAM , ROM , PROM , , MROM , EPROM , EEPROM شامل ہیں۔ سوال نمبر-:3 CPU کی تعریف کیجیے ؟ اور اس کے اہم کاموں کو بیان کیجیے۔ جواب -: سنٹرل پروسیسنگ یونٹ(CPU) کمپیوٹر کے میموری سسٹم یونٹ کے اندرونی حصہ میں نصب ہوتاہے۔ یہ کمپیوٹر کا دماغ ہوتاہے۔ یہ سسٹم کے اندر ہونے والے تمام حسابی ' اینالیٹیکل اور لاجیکل فنکشنز کی تکمیل کرتاہے۔ کمپیوٹر کو فراہم کردہ پروگرام کے مطابق CPU کام کرتاہے۔یہ ڈیٹا کو پروسیس کرتاہے۔ اورحاصل شدہ نتائج کو آؤٹ پُٹ یونٹ کو مہیا کر دیتاہے۔ یہ کمپیوٹر کا سب سے پیچیدہ اور طاقتور حصہ ہوتاہے۔ CPU الیکٹرانک سرکٹس سے بنے ہوئے دو سب یونٹس پر مشتمل ہوتاہے۔ :(1 ارتھ میٹک اینڈ لاج یونٹ(ALU) یا پروسیسنگ یونٹ :(2 کنٹرول یونٹ -:1 ارتھ میٹک اینڈ لاج یونٹ(ALU) -: یہ مختلف ارتھ میٹک اور لاجک امور جیسے تفریق، ضرب ، تقسیم اور لاجک مقابلے کنٹرول یونٹ کی ہدایت کے مطابق بائینری سسٹم میں عددی ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے کرتاہے۔ اور نتائج کنٹرول یونٹ کو منتقل کر دیتا ہے -:2 کنٹرول یونٹ -:(CU) یہ CPU کا سب سے اہم حصہ ہے۔ کیونکہ یہ کمپیوٹر کے دوسرے تمام یونٹس کے کا م کو کنٹرول کرتاہے۔اور ان میں باہمی رابطہ قائم رکھتاہے۔ یہ ان پٹ اور آؤٹ پٹ آلہ جات کے علاوہ سٹوریج کے آلہ جات کو بھی کنٹرول کرتاہے۔ سنٹرل پروسیسنگ یونٹ (CPU) کے کام درج ذیل ہیں : -:(1 یہ ان پٹ سے ڈیٹا اور ہدایات کو موصول کرتاہے۔ -:(2 یہ ہدایات اور ڈیٹا کو اصل یا معاون میموری میں سٹور رکھتا ہے۔ اور بوقت ضرورت ان کو فراہم کردیتا ہے۔ :(3 ہدایات کو سمجھ کر ان کی تعمیل کے لیے متعلقہ یونٹس کو کمانڈز دیتا ہے۔-:(4 ALU میں تمام ارتھ میٹک اور لاجک امور کی تکمیل کرتا ہے -:(5 تمام دوسرے یونٹس کے کام کو کنٹرول کرتاہے اور ان کے کاموں میں باہمی ربطہ پیدا کرتا ہے۔ :(6 CPU بوقت ضرورت آؤٹ پٹ یونٹ کو نتائج فراہم کرتا ہے۔ سوال نمبر -:4 کمپیوٹر سٹوریج (کمپیوٹر میموری)سے کیا مراد ہے؟ انکو کتنے کلاسز میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ یا مین میموری او ر سیکنڈری میموری سے کیا مراد ہے ؟ جواب -: کمپیوٹر سٹوریج جس کو کمپیوٹر میموری بھی کہا جاتاہے اصل میں ایک الیکٹرانک فائل ہوتی ہے جس میں کہ ہدایات اور ڈیٹا وقت ضرورت تک کیلئے محفوظ کر دیئے جاتے ہیں ۔ کمپیوٹر سٹوریج کو دو کلاسز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مین سٹوریج یا مین میموری اور سکنڈری سٹوریج یا سکنڈری میموری ۔ -:1 مین میموری (Main Memory) : مین میموری کمپیوٹر کی پرائمری سٹوریج ہے جس تک CPU کو براہ راست رسائی حاصل رہتی ہے۔ مین میموری ان پٹ یونٹ سے ڈیٹا اور ہدایات وصول کرتی ہے۔ اور CPU کے دوسرے حصوں سے ڈیٹا کا تبادلہ کرتی ہے اور انکو ہدایات مہیا کرتی ہے۔سٹوریج کی مختلف قسمیں دستیاب ہیں جن میں RAM , ROM , PRUM , EPRUM , EAPRUM شامل ہیں۔ -:2 سیکنڈری میموری-: (Secondary Memory) سیکنڈری میموری ی کو معاون سٹوریج بھی کہتے ہیں۔ یہ مین سٹوریج کی گنجائش کو بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہییہ میموری معلومات کی ایک بڑی مقدار سٹور کر لیتی ہے۔ اس کو آگزیلری یا ماس سٹوریج بھی کہتے ہیں۔مقناطیسی ڈسک ،مقناطیسی ٹیپ اسکی مثالیں ہے۔ سیکنڈری سٹوریج کی دو اقسام ہیں۔ سیقوئینشل ایکسیس اور ڈائرکٹ ایکسیس ۔ سوال نمبر-:5 خالی جگہ پُر کریں۔ (باب نمبر1 اور باب نمبر2 کے خالی جگہیں) -:1 یونی وئک (NNIVAC) کا تعلق پہلے دور سے تھا۔ -:2 ڈیفرینس انجن کو چرلس بابیج نے 1822 ء میں ایجاد کیا ۔ -:3 ABACUS کو Soroban , Swanpan بھی کہتے ہے -:4 بلیز پاسکل نے 1642 ء میں پہلی حسابی مشین (Pascaline) ایجاد کیا ۔ -:5 بناوٹ کے لحاظ سے کمپیوٹر کے تین اقسام ہیں۔ -:6 FORTRAN کمپائلر کو Translationکے لئے استعمال کرتا ہے۔ -:7 ڈیجیٹل کمپیوٹر کے چار اقسام ہیں ۔ -:8 سُپر کمپیوٹر ایک تیز ترین کمپیوٹر ہے سوال نمبر-:6 مندرجہ ذیل مخفف الفاظ کے لئے مکمل الفاظ لکھیں۔ نوٹ (یہ بھی باب نمبر1 ، 2 سے لئے گئے ہیں۔) مکمل ا لفاظ مخفف الفاظ مکمل اافاظ مخفف الفاظ Electronic Numerical Integrator And Calculator ENIAC Interational Busniss Mechines IBM Computer Assisted Instruction CAI Computer Managed Instruction CMI Central Processing Unit CPU Integrated Circuit I C Arithmetic Logic Unit ALU Input and Output I/O Control Unit C U Personal Computer PC Read Only Memory ROM Random Access Memory RAM Static Dynemic Read Only Memory SDRAM Masked Read Only Memory MRAM باب نمبر3 ان پُٹ/ آؤٹ پٹ آلات Input/Output Devices سوال نمبر-:1 ان پُٹ آلات سے کیا مراد ہیں؟ چند اہم ان پُٹ آلات کو تفصیلاً بیان کریں۔ جواب-: ان پُٹ آلات (Input Devics) -: ان پُٹ آلات صرف وہ آلات نہیں ہوتے جس کے ذریعے ہم کمپیوٹر کو ڈیٹا یا معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ وہ ہدایات یا پروگرام بھی وصول کرتے ہیں جس سے کمپیوٹر کو پتہ چلتاہے۔ کہ اسے ڈیٹا کو کیا کرنا ہے۔مثلاً کی بورڈ ، ماؤس ، جوائے سٹک ، لائٹ پین ، سکینرز ، ٹریک بال ،مائیکروفون و وائس ریکگنیشن، ویب کیم وغیرہ۔ :(1) کی بورڈ(Keyboard) :- کی بورڈ کمپیوٹر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ان پٹ اور کنٹرول آلہ ہے۔مائیکرو کمپیوٹر کے ساتھ عام طور پر استعمال ہونے والے کی بورڈ دو (2) قسموں کے ہوتے ہیں۔PC/XT کی بورڈ ز اور AT کی بورڈز۔ کی بورڈ میں عام طور پر 101 / 104 / 109 کیزہوتے ہیں۔ کی بورڈ عام طور پر چار حصوں میں تقسیم کی جا سکتاہے۔ *ٹائپ رائٹر حصہ یا الفانیومرک کی پیڈ * نیو میر ک کی پیڈ * فنکشن کی پیڈ * سکرین نیویگیشن اور ایڈیٹنگ کیز (2) ماؤس-: (Mouse) ماؤس ایک ان پٹ آلہ ہے۔ماؤس ہاتھ میں پکڑنے والا اور صرف اشارہ کرنے والا آلہ ہے۔جس کے اوپر دو یا تین بٹن ہوتے ہیں جس کو کلیک کر کے آپشنز کاانتخاب کیا جاتاہے۔ماؤس کے پیندے پر ایک بال بیئرنگ لگا ہوتا ہے جس کی مدد سے ماؤس کو ادھر اُدھر حرکت دی جا سکتی ہے۔ ماؤس کی حرکت کو ماؤس پوانٹر سے معلوم کیا جاسکتاہے۔ (3) ٹریک بال -: (Track Ball) ٹریک بال ایک گیند جیسی ان پٹ ڈیوائس ہے۔ جو الگ باکس میں یا کی بورڈ کے اندر ہی منسلک ہوتی ہے۔ اس گیند کو انگلیوں کی مدد سے حرکت دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں سکرین پر کرسر مختلف سمتوں مین حرکت کرتا ہے۔ (4) لائٹ پین -: (Light Pen) لائٹ پین پین کی شکل کی ایک پوئنٹنگ ڈیوائس ہے۔ لائٹ پین کے الگلے حصے میں ایک فوٹو سیل ہوتا ہے اس کا دوسرا حصہ ایک تار کے ذریعے کمپیوٹر سے منسلک ہوتا ہے۔ جب کمپیوٹر استعمال کنندہ پین کا اگلا سرا سکرین پر پھیرتا ہے تو فوٹو سیل ڈیٹا وصول کرتا ہے اور یہ مطلوبہ کام سرانجام دینے کے لئے کیبل کے ذریعے کمپیوٹر کے سی پی یو کو ہدایاات مہیا کرتاہے۔لائٹ پین تصویریں بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔کرکٹ میچوں میں کمنٹیٹر مختلف مقامات کی نشاندہی کے لئے بھی لائٹ پین کا استعمال کرتے ہیں۔ (5) جوائے سٹک -: (Joystick) جوائے سٹک بھی ایک ان پٹ ڈیوائس ہے یہ ایک عمودی چھڑی کی شکل کی ڈیوائس ہے اس کی مدد سے کمپیوٹر پر مختلف گیمز کھیلی جاتی ہیں اس میں بٹن بھی لگے ہوتے ہیں جنہیں مختلف کامو ں کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ایک جوائے سٹک اور ماؤس کا کام تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے (6) سکینرز -: (Scanners) یہ ایک ان پٹ ڈیوائس ہے اس کی مدد سے تصویریں ' گراف اور مختلف تحریریں کمپیوٹر میں داخل کی جاتی ہیں ۔سکینر کی مدد سے نہایت ک وقت میں بہت قیمتی ڈیٹا آسانی سے کمپیوٹر میں داخل کیا جاتا ہے۔ (7) ڈیجیٹل کیمرے -: (Digital Cameras) عام طور پر تصویر کھینچنے کے لئے کیمرہ استعما ل کرتے ہیں لیکن اگر ہم ڈائریکٹ تصویر کھینچ کر کمپیوٹر کو بھیجنا چاہیں تو اس کے لئے ڈیجیٹل کیمرے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے کی مدد سے تصویر سی ڈی ' ہارڈ ڈیسک یا کمپیوٹر کی ریم میں چلی جاتی ہے۔اس کو محفوظ کر کے بعد میں ضرورت کے مطابق لوڈ بھی کیا جاسکتاہے۔ (8) ڈیسک ڈرائیو/ ہارڈ ڈیسک / مقناطیسی ٹیپ-: یہ ڈیوائسزمستقل طور پر ڈیٹامحفوظ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور کسی بھی وقت انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم ان ڈیوائسز کے ذریعے ڈیٹا حاصل کرتے ہیں تو انہیں ان پُٹ ڈیوائسز کہا جاتا ہے۔جب کہ یہ آؤٹ پُٹ بھی ہیں۔ سوال نمبر-:3 آؤٹ پُٹ ڈیوائس سے کیا مراد ہے؟ کمپیوٹر کے چندآؤٹ پُٹ ڈیوائسز تفصیلاً بیان کریں۔ جواب-: آؤٹ پُٹ آلات (Output Devics) -: کمپیوٹر کے ساتھ استعمال ہونے والے بیرونی آلات جن کی مدد سے انفارمیشن یا نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔آؤٹ پُٹ آلات کہلاتے ہیں۔مثلاً مانیٹر ، پرنٹرز ، پلا ٹرز ، سی ڈیز ، فلاپی ڈرائیوز اور ہارڈڈسک وغیرہ۔ جبکہ فلاپی ڈرائیوز اور ہارڈڈسک ان پٹ آلات کے طور پربھی استعمال کیا جا تاہے۔جو ڈیٹا میں بڑی تبدیلیاں پیدا کرسکتے ہیں۔ :(1) ویڈیو مانیٹرز-:(Video Monitors) ویڈیو ڈسپلے یونٹ یا ویڈیو مانیٹر مائیکرو کمپیوٹر کے ساتھ استعمال ہونے والا بہت مقبول آؤٹ پُٹ ڈیوائس ہے۔ کیونکہ یہ پرنٹنگ دیوائس کی نسبت زیادہ تیز رفتار ، خاموش اور سستا ہوتاہے۔ مانیٹر ٹی وی سکرین جیسا ہوتاہے۔ اسکی دو قسمیں ہے۔ ایک بلیک اینڈ وائٹ اور دوسرا رنگین مانیٹر۔ آجکل مارکیٹ میں زیادہ تر کمپیوٹر کے ساتھ اینالاگ کے بجائے ڈیجیٹل مانیٹر میں چودہ انچ (14 ً ) سے سترہ انچ (17 ً ) تک کے مانیٹر زیادہ ملتے ہیں۔ (2) پرنٹرز-:(Printers) پرنٹرز کمپیوٹر کے ساتھ ہونے والے کارآمد آؤٹ پٹ آلات میں شمار ہوتے ہیں ۔ پرنٹر ز کمپیوٹر کی آؤٹ پٹ کو مستقل شکل دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں پرنٹ کرنے کے طریقے کے لحاظ سے پرنٹرز کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ (1 ایمپکٹ (Impact) پرنٹرز۔ (2 نان ایمپکٹ مزید ایمپکٹ پرنٹرزکی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ * ڈاٹ میٹرکس پرنٹرز * ڈیزی وھیل پرنٹرز * لائن پرنٹرز اسطرح نان ایمپکٹ پرنٹرز کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں ۔ مثلاً * انک جیٹ * بابل جیٹ * الیکٹروتھرمل اور * لیزر پرنٹرز ایمپکٹ پرنٹرز کی بانسبت نان ایمپکٹ پرنٹرز زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ۔ یہ کم شور پیدا کرتے ہیں۔ اور انکی پرنٹنگ کوالٹی بہتر ہوتی ہے۔ (3) پلا ٹرز-:(Plotters) پلاٹر ایک آؤٹ پٹ ڈیوائس ہے۔ جو بڑے سائز کے گرافوں اور ڈیزائنوں کو پرنٹ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پلاٹر کی دو بڑی اقسا م ہیں۔ (1) فلیٹ بیڈ پلاٹر(Flat Bed Plotter) اور (2) ڈرم پلاٹر (Drum Plotter) (4) موڈیم -: (Modem) موڈیم ایک ایسی ڈیوائس ہے جس کی مد د سے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر کو معلومات ' نتائج اور ڈیٹا بھیجا جاتا ہے۔ اور اسی طرح دوسرے کمپیوٹر سے معلومات ' نتائج او ر ڈیٹاوصول کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ڈیوائس ان پٹ اور آؤٹ پٹ دونوں طرح کے کام سرانجام دیتی ہے ہارڈ ڈیسک -: (Hard Disk) ہارڈ ڈیسک کمپیوٹر کے اندر لگایاجاتا ہے ۔۔اسے فلاپی ڈیسک کی طرح آسانی سے لگائی یا اتاری نہیں جاسکتی ۔ہارڈ ڈیسک میں کمپیوٹر کا آپریٹنگ سسٹم اور دیگر پروگرامز انستال کئے جاتے ہیں۔اس کے مختلف حصے(Partitions) بھی بنائی جا سکتی ہیں۔ (6) فلاپی ڈیسک -: (Floppy Disk) فلاپی ڈیسک کو ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹا منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔انہیں Diskettes بھی کہا جاتا ہے۔یہ باریک اور لچکدار ہوتی ہے اس لئے انہیں Floppy کہتے ہیں۔جس کا مطلب ہے لچکدار۔یہ سائز کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں اور قیمت میں آسان اورپلاسٹک کے کور میں محفوظ ہوتی ہیں۔ (7) سی ڈی -: (CD) سی ڈی (CD) کا مطلب (Compect Disc) ہے۔کمپیوٹر میں اسے سی ڈی روم کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔یہ سخت مادے کی بنی ہوتی ہے۔ ان پر مختلف پرگرامز ، گیمز ، گانے اور فلم محفوظ کر کے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک عام سی ڈی پر 500MB تا 800MB ڈیٹا لیزر شعاعوں کی مدد سے محفوظ کیا جاسکتاہے۔ سوال نمبر-:4 ہارڈ کا پی اور سافٹ کاپی سے کیا مراد ہے؟ جواب-: کمپیوٹر سے ہمیں آؤٹ پُٹ دو شکلوں میں حاصل ہوتا ہے۔ جوکہ درج ذیل ہے۔ سافٹ کاپی-: (Soft Copy) سافٹ کاپی سے مراد ہے آؤٹ پٹ کی ایسی شکل ہے جسے چھو ا نہیں جا سکتا۔ اس سے مراد ہے کہ آؤٹ پٹ غیر مادی شکل میں ہے۔ کمپیوٹر کی سکرین پر جو ہم آؤٹ پٹ دیکھتے ہیں اسے سافٹ کاپی کہتے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹر سے آواز کی شکل میں جو آؤٹ پٹ حاصل ہوتا ہے اسے بھی سافٹ کاپی کہتے ہیں۔ ہارڈ کاپی-:(Hard Copy) ہارڈ کاپی سے مراد کمپیوٹر سے حاصل ہونے والا ایسا آؤٹ پٹ ہے جسے مادی شکل میں دیکھا جا سکے۔ چھوا جا سکے۔ کمپیوٹر میں پرنٹر کے ذریعے کاغذ پر حاصل ہونے والا آؤٹ پٹ ہارڈ کاپی کہلاتا ہے۔ ہارڈ کاپی حاصل کرنے کے لئے ہم پرنٹر اور پلاٹر وغیرہ استعمال کرتے ہیں سوال نمبر-:5 خالی جگہ پُر کریں۔ -:1 LASER مخفف ہے ۔ Light Amplification by Stimulated Emission of Rays. -:2 عام طور پر کی بورڈ کے 101 کیز(بٹنز)ہوتے ہیں۔ -:3 ان پُٹ ڈیوائس جس کے یونٹ کے طور پر دو یا تین بٹن ہوتے ہیں ماؤس کہلاتاہے۔ -:4 ڈیجیٹل کِیمرے کے ذریعے ہم کمپیوٹر کو تصاویر ان پٹ کرتے ہیں۔ -:5 ڈرائنگ اور نقشے کے لئے ہم ان پٹ ڈیوائس سکِنر استعمال کرتے ہیں۔ -:6 3.5 فلاپی ڈیسکٹ میں گنجائش ہوتی ہے 1.44MB ۔ -:7 VDU مخفف ہے ۔Video Display Unit . -:8 WORM مخفف ہے ۔Write-once, read-many . -:9 CD-R مخفف ہے ۔Compact Disk- Recordable -:10 CD-RW مخفف ہے ۔ Compact Disk- Re-Writable -:11 پلاٹر کے دو اقسام ہیں۔ فلیٹ بیڈ پلاٹر اور ڈرم پلاٹر -:12 مختلف کمپیوٹر مین رابطے کیلئے موڈیم استعمال ہوتا ہے۔ -:13 مائیکرو فون کمپیوٹر پر آواز ریکارڈ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ باب 4 سٹوریج آلات(Storage Devices) سوال نمبر -:1 مین میموری یا ابتدائی میموری سے کیا مراد ہے؟ اس کے مختلف اقسام بیان کریں۔ جواب -: مین میموری (Main Memory) -: مین میموری کمپیوٹر کی پرائمری سٹوریج ہے جس تک CPU کو براہ راست رسائی حاصل رہتی ہے۔ پرائمری میموری میں وہ ڈیٹا اور پروگرام موجود ہوتے ہیں جو کہ زیراستعمال ہوں۔ تما م کمپیوٹروں میں یہ میموری موجود ہوتی ہے۔یہ ڈیٹا محفوظ کرنے کے کئی چھوٹے چھوٹے خانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک خانہ مخصوص تعداد میں بٹس(Bits) محفوظ کر سکتا ہے۔ مین میموری ان پٹ یونٹ سے ڈیٹا اور ہدایات وصول کرتی ہے۔ اور CPU کے دوسرے حصوں سے ڈیٹا کا تبادلہ کرتی ہے اور انکو ہدایات مہیا کرتی ہے۔ مین میموری کے چند اقسام کا ذکرمختصر طور پر کچھ یوں کیا جاسکتا ہے۔ (1) ریم(RAM) -: RAM (Random Access Memory) کا مخفف ہے ۔یہ کمپیوٹر کی عارضی میموری ہوتی ہے۔جب کمپیو ٹر آن ہو ۔تو ہدایات یا ڈیٹا کو سٹور کرنے کیلئے یہ میموری استعمال کیا جاتاہے اور جب کمپیوٹر آف کر دیا جاتا ہے تو اسمیں سٹور شدہ تمام معلومات ختم ہو جاتی ہے۔ریم کو وولاٹائل (Volatile) میموری بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کمپیوٹر کے آف ہوتے ہی اس میں اسٹور شدہ ڈیٹا غائب ہو جاتا ہے۔ریم کی پیمائش کلو بائٹس یا میگا بائٹس میں کی جاتی ہے (2) روم(ROM) -: ROM (Read Only Memory) کا مخفف ہے ۔جس کا مطلب صرف پڑھی جاسکنے والی یاداشت ہے۔ روم میں موجود ڈیٹا پڑھا تو جا سکتاہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس میں ایسی معلوما ت محفوظ کی جاتی ہیں جن کی کمپیوٹر کو اپنے کام کے دوران ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔یہ کمپیوٹر کی دائمی میموری ہوتی ہے۔جوکہ کمپیوٹر بنانے والے خود ہی ڈیزائن کرتے ہیں۔ روم ایک نان وولاٹائل (Non-Volatile) میموری ہے۔ جس کا یہ مطلب ہے۔ کہ جب کمپوٹر آف کر دیا جاتا ہے۔ تو میموری میں سٹور شدہ معلومات ضائع نہیں ہوتیں۔ روم میں سٹور شدہ پروگرام کو فرم وایئر کہتے ہیں۔ (3) سیم(SIMM) -: لفظ سیم SIMM سے مراد ہے۔ (Single-in-line memory module.) ۔یہ ایک چھوٹا سا سرکٹ بورڈ ہے جس پر ریم (RAM) کے چپس لگے ہوتے ہیں۔ یہ ڈیٹا بتیس (32) بیٹس کے سائز میں محفوظ کرتاہے۔ اس کے نیچے کو نیکٹرز(Connectors) ہوتے ہیں۔جن کی مدد سے اسے مدربورڈ پر مخصوص سلاٹ(Slot) میں لگایا جاتا ہے۔ کمپیوٹر پر سمز جوڑو ں کی شکل میں لگائے جاتے ہیں اس لئے کمپیوٹر پر کم از کم دو سِم لگا ئے جاتے ہیں۔ (4) ڈیم (DIMM) -: لفظ ڈیم DIMM سے مراد ہے۔ (Dual inline memory module.) ۔سیم کی طرح یہ بھی سرکٹ بورڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس پر ریم کے چپس لگے ہوتے ہیں۔ اس میں ڈیٹا 64 بیٹس کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے۔کمپیوٹر میں ڈیم صرف ایک بھی لگایا جا سکتا ہے سیم کی طرح ڈیم جوڑوں کی شکل میں لگانا ضروری نہیں۔ سوال نمبر -:2 ثانوی میموری یا سیکنڈری میموری سے کیا مراد ہے؟ مختلف قسم کے سیکنڈری سٹوریج ڈیوائسز بیان کریں۔ جواب -: ثانوی میموری یا سیکنڈری میموری -: سیکنڈری میموری کو معاون سٹوریج بھی کہتے ہیں۔ یہ مین سٹوریج کی گنجائش کو بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہ میموری معلومات کی ایک بڑی مقدار کو مستقل طور پر سٹور کر لیتی ہے اس کو آگزیلری یا ماس سٹوریج بھی کہتے ہیں۔ فلاپی ڈیسکیں ، ہارڈ ڈسک ،مقناطیسی ٹیپ اورسی ڈی اسکی مثالیں ہے۔ سیکنڈری سٹوریج کی دو اقسام ہیں۔ سیقوئینشل ایکسیس اور ڈائرکٹ ایکسیس ۔ مختلف قسم کے سیکنڈری سٹوریج ڈیوائسز کو کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ -:1 فلاپی ڈیسک(Floppy Disk) -: فلاپی ڈیسک کو ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹا منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔انہیں Diskettes بھی کہا جاتا ہے۔یہ باریک اور لچکدار ہوتی ہے اس لئے انہیں Floppy کہتے ہیں۔جس کا مطلب ہے لچکدار۔یہ سائز کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں اور قیمت میں آسان اورپلاسٹک کے کور میں محفوظ ہوتی ہیں۔ -:2 ہارڈ ڈیسک -: (Hard Disk) ہارڈ ڈیسک کمپیوٹر کے اندر لگایاجاتا ہے اسے فلاپی ڈیسک کی طرح آسانی سے لگائی یا اتاری نہیں جاسکتی ۔ ہارڈ ڈیسک میں کمپیوٹر کا آپریٹنگ سسٹم اور دیگر پروگرامز انسٹال کئے جاتے ہیں۔اس کے مختلف حصے(Partitions) بھی بنائی جا سکتی ہیں۔یہ بہت تیزی سے کام کرتی ہے۔ -:3 سی ڈی -: (CD) سی ڈی (CD) کا مطلب (Compect Disc) ہے۔کمپیوٹر میں اسے سی ڈی روم کے ذریعے چلایا جاتا ہے یہ سخت مادے کی بنی ہوتی ہے۔ ان پر مختلف پرگرامز ، گیمز ، گانے اور فلم محفوظ کر کے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک عام سی ڈی پر 500MB تا 800MB ڈیٹا لیزر شعاعوں کی مدد سے محفوظ کیا جاسکتاہے۔ -:4 میگنیٹک ٹیپ-:( Magnetic Tape) میگنیٹک ٹیپ عام استعمال ہونے والی اضافی سٹوریج ڈیوائسز میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ مائیلار سے بنی باریک ٹیپ ہوتی ہے جو 1/4 سے 1 اینچ تک چوڑی ہوتی ہے اس ٹیپ پر فیرس آکسائیڈ کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے جس میں انفارمیشن ریکارڈ کی جاتی ہے۔ سوال نمبر-:3 کیش میموری اور ورچوئل میموری پر نوٹ لکھیں۔ جواب -: کیش میموری-:(Cashe Memory) کیش میموری سنٹرل پروسیسر یونٹ اور مین میموری کے درمیان رابطے کا کام سرانجام دیتی ہے۔ کیش میموری کے استعمال سے کمپیوٹر سسٹم کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ کیش میموری کی رفتار مین میوری سے کہیں زیادہ ہے۔ کیش میموری میں ایسی معلومات ااور ڈیٹا محفوظ کیاجاتاہے جس پر فوری عمل درکار ہو۔ سنٹرل پروسیسنگ یونٹ مین میموری کی بجائے کیش میموری سے یہ ضروری معلومات اور ڈیٹا حاصل کر کے تیزی سے مطلوبہ کام سرانجام دیتا ہے۔ ورچوئل میموری -:(Virtual Memory) ایک خاص سافٹ ویئر کی مدد سے ہارڈ ڈسک کا کچھ حصہ میموری کے طور پر استعمال کرنے کے لئے مخصوص کر دیا جاتاہے۔ہارڈ ڈسک کا عارضی میموری کے لئے یہ محفوظ حصہ ورچوئل میموری کہلاتاہے۔ ورچوئل میموری سسٹم ایک پروگرام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ جنہیں پیجز (Pages) کہتے ہیں تمام پروگرام مین میموری میں لوڈ کرنے کی بجائے اس کے چند پیجز میموری میں لوڈ کئے جاتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر میموری میں دوسرے پروگراموں کے لئے کافی جگہ بچ جاتی ہے۔ اس طرح ہم ورچوئل میموری استعمال کر کے ایک سے زیادہ پروگرام چلا سکتے ہیں۔ سوال نمبر-:4 ڈیٹا کی پیمائش کی اکائیا ں بیان کریں؟ نیز مختصراً ان کو ٹیبل کی صورت میں تحریر کریں؟ جواب -: -:1 بٹ-:(Bit) تمام کمپیوٹر ہندسوں کے ثنائی نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ وہ ایک یا صفر کی شکل میں ڈیٹا پراسیس کرتے ہیں۔ صفر اور ایک میں سے ہر ایک کو بٹ(Bit) کہاجاتا ہے۔ جو بائنری ڈجٹ (BInary digiT) کے الفاظ سے اخذ کیاگیا ہے۔ -:2 بائٹ-:(Byte) آٹھ بیٹس(8 Bits) پر مشتمل اکائی کو بائٹ کہتے ہیں۔اور بائٹ ایک کریکٹر یا حرف ہوتاہے۔ -:3 نبل-:(Nibble) چار بیٹس(4 Bits) کی ترتیب یا سیکونس کو نبل کہتے ہیں۔ -:4 کلو بائٹ(Killobyte) -: کمپیوٹر کی اصطلاح میں کلو سے مراد دو کی طاقت ( 210) یا 1024 ہے۔ ایک کلو بائٹ1024 بائٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ -:5 میگا بائٹ -:(Megabyte)ایک میگا بائٹ 1024 کلو بائٹس کے برابر ہو تا ہے۔ -:6 گیگا بائٹ-:(Gigabyte) ایک گیگا بائٹ 1024 میگا بائٹس کے برابر ہوتاہے۔ -:7 ٹیرا بائٹ-:(Tarabyte) ایک ٹیرا بائٹ 1024 گیگا بائٹس کے برابر ہوتاہے۔ پیمائش کی ان اکائیوں کو ٹیبل کی صورت میں مختصر طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ آٹھ بِٹس (8 Bits ) = ایک بائٹ ( 1 Byte ) 1024 بائٹس (1024 Bytes) = ایک کلو بائٹ (1 KB) 1024 کلو بائٹس (1024 KB ) = ایک میگا بائٹ ( 1 MB) 1024 میگا بائٹس (1024 MB ) = ایک گیگا بائٹ ( 1GB ) 1024 گیگا بائٹس (1024 GB ) = ایک ٹیر ا بائٹ ( 1 TB) سوال نمبر-:5 خالی جگہ پُر کریں۔ -:1 کارکردگی کے لحاظ سے کی بورڈ پرنٹر کے الٹ استعمال ہوتا ہے۔ -:2 چھوٹے سائز کی فلاپی ڈسک کو مائیکرو فلاپی ڈسک کہتے ہے -:3 سی ڈی سے مراد ہے۔ کم پیکٹ ڈیسک -:4 سی ڈی یو سے مراد ہے ویڈیو ڈسپلے یونٹ -:5 لائٹ پین پین کی شکل کی ڈیوائس ہے۔ -:6 پلاٹر ایسا الہ ہے جو کمپیوٹر کے کنٹرول میں تصویریں بناتا ہے۔ -:7 مقناطیسی ٹیپ تسلسل کے ساتھ ترتیب وار طریقے سے ڈیٹا مہیا کرتا ہے۔ -:8 جب برقی رو منقطع ہو جائے تو ریم سے ڈیٹا ختم ہو جاتا ہے۔ -:9 مین میمور ی کو ابتد ائی میموری بھی کہا جاتا ہے۔ :10 سیکنڈری سٹوریج کو ماس سٹوریج بھی کہا جا تا ہے۔ :11 سیم (SIMM) سے مراد ہےSingle in-lion memory module -:12 CDR سے مراد ہے۔کم پیکٹ ڈیسک ریکارڈِبل -:13 روم ROM (Read Only Memory) کا مخفف ہے -:14 CDRW سے مراد ہے۔ کم پیکٹ ڈیسک ری رائٹِبل -:15 Bit بائنری ڈجٹ (BInary digiT) کا مخفف ہے۔ -:16 آٹھ بٹ (8 Bit) برابر ہے 1 Byte باب نمبر5 ڈیٹا کا اظہار ( Data Representation ) سوال نمبر-:1 ڈیٹا (Data) کیا ہے ؟ ڈیٹا کی مختلف اقسام مثالیں دیکر بیان کریں۔ جواب-: حقائق (Facts) ،تصورات، ہدایات اور اشکال (Figures) کے مجموعے کو ڈیٹا کہتے ہیں۔باالفاظ دیگر وہ سگنلز جن کے ساتھ کمپیوٹر کام کرتا ہے ڈیٹا کہلاتا ہے۔یعنی حروف ، اعداد ا اور علامتوں کے مجموعے کوڈیٹا کہتے ہیں۔ مثلاً طلباء کا ریکارڈ ، اساتذا کا ریکارڈ میٹرک کا نتیجہ وغیرہ ۔ جب ڈیٹا کو موزوں طریقے سے ترتیب دیا جائے تو انفارمیشن حاصل ہوتی ہے۔ ڈیٹا کے اقسام-: ڈیٹاکو مندرجہ ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ -:1 عددی ڈیٹا یا نومیرک ڈیٹا-:(Nomeric Data) نومیرک ڈیٹا صرف اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مثلاً -12.5 ' 14 ' 2.25 وغیرہ۔ نومیرک ڈیٹا کے دو اقسام ہوتی ہیں ۔ انٹیجرڈیٹا (Integer Data) اور ریئل ڈیٹا(Real Data) انٹیجرڈیٹا میں صفر سمت تمام مثبت اور منفی مکمل اعداد جب کہ ریئل ڈیٹا میں تمام کسور اور صحیح اعداد شامل ہوتے ہیں۔ -:2 الفابیٹک ڈیٹا -:(Alphabetic Data) الفابیٹک ڈیٹا میں حروف تہجی کے تما م حروف شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً Rahmat ' Z ...B'A . ایشیا وغیرہ۔ -:3 الفا نومیرک ڈیٹا -:(Alphanumeric Data) الفانومیرک ڈیٹا میں اعداد اور حروف تہجی کے تمام حروف بمعہ سپیشل کریکٹر جیسے % ، ؟ ، # * وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔مثلاً F-16 ' PK 345 ' 4A ' 14 August وغیرہ۔ سوال نمبر-:2 عددی نظام (Number System)کیا ہے ؟ عددی نظام کے مختلف اقسام بیان کریں جواب-: عددی نظام (Number System) -: عددی نظام علامات یا ہندسوں کا ایک سیٹ ہوتاہے۔ جو کہ چیزوں کو گننے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یا ہندسی عدد اور کسی چیز کی مقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر عددی نظام ہندسوں کی مخصوص تعداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو اس نظام کی اساس (Base) کہلاتی ہے۔ آسانی کے لئے ہم نمبر سسٹم کو ( 0........ N)b کے طریقے سے ظاہر کر سکتے ہے۔ جس میں 0 سٹارٹ نمبر کو ' N (Miximum Digits) کو اور b نمبر سسٹم کے اساس (Base) کوظاہر کرتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں تمام معاملات ہم اعشاری نظام میں سرانجام دیتے ہیں۔ اعشاری نظام کی اساس دس ہے۔ یعنی اس میں صفر تا نو ہندسے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساس دو یعنی ثنائی نظام ، اساس آٹھ اور اساس سولہ کا نظام عام طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہیں: -:1 اعشاری نظام-:(Decimal Number System) یہ نظام دس ہندسوں ( 9...... 2,1,0) پر مشتمل ہے۔ اس لئے اس کی اساس (Base) بھی دس (10) ہے۔ اس نطام میں ہم 864 کو یوں لکھتے ہیں۔ 864 = 8 x 102 + 6 x 101 + 4 x 100 -:2 ثنائی نمبر سسٹم -:(Binary Number System) اس نظام میں صرف دو ہندسے 0 اور 1 استعمال ہوتے ہیں۔اس لئے اسے بائنری یا ثنائی نمبر سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس کا اساس دو (2) ہوتا ہے۔اور اس نظام میں کسی عدد 1011 کو علامتی طور پر (1011)2 سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ -:3 اساس آٹھ کا نظام :(Octal Number System) اس نظام میں کل آٹھ ہندسے( 0 تا 7 ) استعمال ہوتے ہیں۔اس لئے اس کا اساس بھی آٹھ ہوتا ہے۔ اساس آٹھ کے عدد (236)8 کے مترادف اعشاری عدد یا ڈیسمل درج ذیل ہے۔ (236)8 = 2 x 82 + 3 x 81 + 6 x 80 2 x 64 + 3 x 8 + 6 x 1 128 + 24 + 6 = 158 (236)8 = 158 -:4 اساس سولہ کا نظام :(Hexadecimal Number System) اس نظام میں کل سولہ ہندسے یعنی (F,E,D,C,B,A,9........,1,0) ہوتے ہیں۔ اس سسٹم میں F, E , D , C , B , A بلاترتیب 14 , 13, 12 , 11 , 10 اور 15 کو ظاہر کرتے ہیں۔اس نظام کی اساس سولہ (16) ہوتی ہے۔ اس نظام کے ہر ہندسے کو چار ثنائی ہندسوں سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبلوں میں اکٹل نمبر کے متبادل بائنری نمبرز اور ہیکساڈسیمل سسٹم کے اعداد کا بائنری نمبرز دیکھیں : متبادل بائنری اکٹل نمبر بائنری نمبر ہیکساڈسیمل سسٹم کا عدد بائنری نمبر ہیکساڈسیمل سسٹم کا عدد 000 0 0000 0 1000 8 001 1 0001 1 1001 9 010 2 0010 2 1010 A 011 3 0011 3 1011 B 100 4 0100 4 1100 C 101 5 0101 5 1101 D 110 6 0110 6 1110 E 111 7 0111 7 1111 F سوال نمبر-:3 عددی نظام(نمبر سسٹم) میں اہم نظاموں کے تبدیلی (Conversion) کے طریقے مثال دیکر بیان کریں؟ جواب -: نمبر سسٹم میں اہم نظاموں کے تبدیلی (Conversion) کے طریقے بمعہ مثال حسبِ ذیل ہیں : -:1 اعشاری نظام سے ثنائی نظام میں تبدیلی-:(Decimal to Binary Conversion) ڈیسیمل عد د اور کسور کو بائنری متبادل میں تبدیل کرنے کا طریقہ -: اعشاری عد د کو ثنائی عدد میں تبدیل کرنے کے لئے اعشاری عدد کو لگاتار دو (2) پر تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر بار کیری نوٹ کی جاتی ہے۔ جب کہ ڈیسیمل کسور کو بائنری متبادل میں تبدیل کرنے کے لئے ڈیسیمل کسر کو لگاتار 2سے ضرب دی جاتی ہے۔ اور ہر بار کیری نوٹ کیا جاتا ہے مثلاً0 . 375 کو دیکھئے۔ 0 . 375 x 2 = 0. 75 یہاں کیری صفر ہے۔ 0 . 75 x 2 = 1 . 25 یہاں کیری ایک ہے۔ 0 . 50 x 2 = 1 . 00 یہاں کیری ایک ہے۔ Answer 0 . 375 = (0.011)2 Hence (i) :- (50)10 = ( ? )2 2 50 2 25 - 0 2 12 - 1 2 6 - 0 2 3 - 0 2 1 - 1 0 - 1 1 1 0 0 1 0 (50)10 = ( 110010 )2 Answer -:2 ثنائی نظام سے اعشاری نظام میں تبدیلی-:(Binary to Decimal Conversion) (i) :- (10110)2 = ( ? )10 (10110)2 = 1 x 24 + 0 x 23 + 1 x 22 + 1 x 21 + 0 x 20 1 x 16 + 0 x 8 + 1 x 4 + 1 x 2 + 0 x 1 16 + 0 + 4 + 2 + 0 (10110)2 = 22 Answer نوٹ-: اگر ثنائی (بائنری) سسٹم میں مخلوط نمبر ہو تو اس کو حسبِ ذیل طریقے سے حل کیا جائے گا۔ (ii) :- (101 . 011)2 = ( ? )10 (101 . 011)2 = 1 x 22 + 0 x 21 + 1 x 20 + 0 x 2-1 + 1 x 2-2 + 1 x 2-3 1 x 4 + 0 x 2 + 1 x 1 + 0 x 1/2 + 1 x 1/4 + 1 x 1/8 4 + 0 + 1 + 0 + 0.25 + 0.125 (101 . 011)2 = 5. 375 Answer -:3 اعشاری نظام سے اساس آٹھ کے نظام میں تبدیلی-:(Decimal to Octal Conversion) اس نظام میں اعشاری (ڈیسیمل) نمبر کو لگاتار آٹھ(8) سے تقسم کیا جاتا ہے۔اور ہر بار کیری معلوم کی جاتی ہے الٹی ترتیب میں ان باقی ہندسوں سے آخٹل نمبر حاصل ہوتاہے ۔ حسبِ ذیل دو مثالوں کو دیکھئے :۔ (ii) :- (197)10 = ( ? )8 8 197 8 24 - 5 8 3 - 0 0 - 3 3 0 5 (1583)10 = ( 3057 )8 Answer (i) :- (1583)10 = ( ? )8 8 1582 8 197 - 7 8 24 - 5 8 3 - 0 0 - 3 3 0 5 7 (1583)10 = ( 3057 )8 Answer -:4 اساس آٹھ کے نظام کو اعشاری نظام میں تبدیلی-:(Octal to Decimal Conversion) (ii) :-(372)8 = ( ? )10 (372)8= 3 x 82 + 7 x 81 + 2 x 80 = 3 x 64 + 7 x 8 + 2 x 1 = 222 + 56 + 2 = 280 (3057)8 = ( 280 )10 Answer (i) :- (3057)8 = ( ? )10 (3057)8= 3 x 83 + 0 x 82 + 5 x 81 + 7 x 80 = 3 x 512 + 0 x 64 + 5 x 8 + 7 x 1 = 1536 + 0 + 40 + 7 = 1583 (3057)8 = ( 1583 )10 Answer اعشاری نظام سے اساس سولہ کے نظام میں تبدیلی-:(Decimal to Hexadecimal Conversion) کسی ڈ یسیمل نمبر کا ہیکسا سسٹم میں متبادل معلوم کرنے کے لئے اس کو لگاتارسولہ(16) پر تقسم کریں اور ہر بار کیری معلوم کریں۔ الٹی ترتیب میں ان باقی ہندسوں سے سولہ عددی سسٹم مین متبادل حاصل ہوتاہے ۔ اعشاری نظام کے عدد (1583)10 کے مترادف اساس سولہ نظام کا عدد درج ذیل طریقے سے آئے گا۔ (i) :- (20154)10 = ( ? )16 16 20154 16 1259 - 10 = A 16 79 - 11 = B 16 4 - 14 = E 0 - 4 = 4 4 E B A (1583)10 = ( 4EBA )16 Answer -:6 اساس سولہ سے اعشاری نظام میں تبدیلی-:(Hexadecimal to Decimal Conversion) ہیکسا سسٹم کے کسی نمبر کا ڈیسیمل متبادل معلوم کرنے کے لئے اس نمبر کے ہر ہندسہ کو اس کی پوزیشن ویلیو سے ضرب دی جاتی ہے ان پروڈکس (حاصل ضرب) کا مجموعہ ڈیسیمل متبادل ہوتا ہے۔ مثلاً اساس سولہ کے عدد (3F8A)16 کے مترادف اعشاری عدد یا ڈیسیمل نمبر درج ذیل ہے۔ (i) :- (3F8A)16 = ( ? )10 (3F8A)16 = 3 x 163 + F x 162 + 8 x 161 + A x 160 = 3 x 4096 + F x 256 + 8 x 16 + A x 1 = 12288 + 3840 + 128 + 10 = 16266 (3F8A)16 = ( 16266 )10 Answer سوال نمبر -:4 ثنائی نظام میں جمع ' تفریق' ضرب اور تقسیم کے عمل کاٹیبل بنا کر ایک ایک مثال تحریر کریں؟ جواب -: ثنائی نظام میں جمع ' تفریق' ضرب اور تقسیم کے عمل کا ایک ٹیبل مندرجہ ذیل ہیں۔ ثنائی نظام کی جمع ثنائی نظام کی تفریق ثنائی نظام کی ضرب ثنائی نظام کی تقسیم 0 + 0 = 0 0 + 1 = 1 1 + 0 = 1 1 + 1 = 0 0 - 0 = 0 0 - 1 = 1 1 - 0 = 0 1 - 1 = 1 0 x 0 = 0 0 x 1 = 0 1 x 0 = 0 1 x 1 = 1 0 239 1 = 0 1 239 1 = 1 ثنائی نظام میں جمع ' تفریق' ضرب اور تقسیم کے عمل کی مثالیں ثنائی اعداد کی جمع کا مثال ثنائی اعداد کی تفریق کا مثال ثنائی اعدادکی ضرب کا مثال ثنائی اعداد کی تقسیم کا مثال 101 + 110 1011 1001 - 101 100 1100 x 1010 111000 101 101 11001 101 101 101 x سوال نمبر-:5 کمپیوٹر میں کوڈنگ سے کیا مراد ہے؟ جواب-: ہر بائنری ڈیجٹ کو بیٹ(Bit) کہتے ہے۔ کسیڈیجیٹل سسٹم میں تمام انفارمیشن بیٹس کی ایک ترتیب سے ظاہر کی جاتی ہے۔ 4 بیٹ کی ترتیب کو نیبل(Nibble) کہتے ہیں۔ جب کہ 8 بیٹ کی ترتیب بائٹ کہلاتی ہے۔ آٹھ (8) مائیکرو پروسیسر ڈیٹا یا ہدایات کو بائٹس کی صورت میں حاصل کرتا ہے۔ پھر پروسیس اور سٹور کرتا ہے۔ اور آگے بھیجتا ہے۔ کمپیوٹر صرف بائنری زبان ہی سمجھتا ہے۔ اس لئے تمام ڈیٹا خواہ وہ نیومیرک ہو یا نان نیومیرک ، بائنری زبان میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔اس عمل کو کوڈنگ (Coding) کہتے ہیں۔ لہذا نومیرک اور نان نیومیرک انفارمیشن کو بائنری ڈیجٹس میں ظاہر کرنے کے عمل کو کوڈنگ کہتے ہیں۔ڈیٹا کے ظاہر کرنے کے لئے مختلف کوڈ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً EBCDIC , ASCII , BCD , Binary سوال نمبر-:6 ASCII , BCD اور EBCDIC کوڈ بیان کریں ؟ جواب-: BCD(1) کوڈ :۔ اس کوڈ میں ہر اعشاری ڈیجیٹ اس کے 4 بیٹ متبادل سے ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً اعشاری نمبر247 کیلئے BCD کوڈ یوں ہوگا 7 4 2 ۔۔۔ اعشاری نمبر 0111 0100 0010 ۔۔۔ BCD کوڈ لہذا 247 کیلئے BCD کوڈ 001001000111 ہے۔ ASCII (2) کوڈ-: ASCII (American Standard Code for Information Interchange ) کا مخفف ہے۔ ASCII ایک 7 بیٹ کوڈ ہے۔ جو الفانیومیرک ڈیٹا کے لئے استعمال ہوتا ہے۔یہ کوڈ کمپیوٹر بنانے والوں کو ان پٹ / آؤٹ پٹ ڈیوائسز جیسے کی بورڈ و پرنٹر وغیرہ کو معیاری بنانے کے کام آتا ہے۔ ASCII کی توسیع شدہ صورت زائد8 بیٹ استعمال کرتی ہے۔ EBCDIC (3) کوڈ-: EBCDIC (Extendid Binary Coded Decimal Interchange Code) کا مخفف ہے۔ اور اصولی طور پر 8 بیٹ کوڈ ہے۔اسے آئی بی ایم اور آئی بی ایم کمپیٹبل کمپیوٹر سسٹم والے استعمال کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں کچھ الفانیومیرک کریکٹرز ASCII اور EBCDIC کوڈ میں دیکھائے گئے ہیں۔ EBCDIC 8 بیٹ کوڈ ASCII 7 بیٹ کوڈ کریکٹرز 1 10 0 0 0 0 1 1 0 0 0 0 0 1 A 1 10 0 0 0 1 0 1 0 0 0 0 10 B 1 10 0 0 0 1 1 1 0 0 0 0 1 1 C ---------------- ---------------- : 1 1 1 1 0 0 0 0 011 0 0 0 0 0 1 1 1 1 0 0 0 1 011 0 0 0 1 1 1 1 1 1 0 0 1 0 011 0 0 1 1 2 ---------------- ---------------- : 1 1 1 1 1 0 0 1 0111 0 0 1 9 سوال نمبر-:6 خالی جگہ پُر کریں۔ -:(1) ایک بائٹ آٹھ (8) بیٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ -:(2) ASCII 7 بیٹ کوڈ ہوتا ہے :(3) EBCDIC 8 بیٹ کوڈ ہوتا ہے۔-:4 -:(4) آکٹل نمبر سسٹم کا اساس 8 ہوتا ہے۔-:(5) Computer کے ورڈ میں 64 بیٹس ہیں۔ اس ورڈ میں 8 بائٹس ہوں گے۔ -:(6) 1 + 1 = 0 -:(7) 1 239 1 1 = -:(8) 1 = 1 - 1 -:(9) ہر بائنری ڈیجٹ کو بیٹ(Bit) کہتے ہے۔ -:(10) الفابیٹک ڈیٹا میں حروف تہجی کے تما م حروف شامل ہوتے ہیں۔ باب نمبر6 بولین الجبرا(Boolean Algebra) سوال نمبر-:1 بولین الجبر ا (Boolean Algebra) کیا ہے؟ بولین الجبرا کے قوانین (Laws) بیان کریں۔ جواب : بولین الجبرا -:(Boolean Algebra) 1854 ء میں ایک برطانوی ریاضی دان جارج بول نے الجبرا کی ایک قسم متعارف کرائی جو بہت سادہ اور انسانی فہم کے قریب تر ہے۔ اس نے اسے بولیئن الجبرا کا نام دیا۔ جارج بول نے بیان کیا کہ اس الجبرا کی مدد سے الیکٹریکل سرکٹ سوئچ بنائے جا سکتے ہیں۔ 1938 ء میں شانن نے بولین الجبرا میں دو قیمتیں متعارف کرائیں اور اسے سوئچنگ الجبرا کانام دیا۔ بولین الجبرا میں صرف دو قیمتیں استعمال ہوتی ہیں۔ صفر اور ایک ۔ یہ دونوں قیمتیں بائنری ویری ایبل کہلاتی ہیں۔ اس لئے بائنری ویری ایبل کی قیمت صحیح ہوگی یعنی ایک ہوگی یا قیمت غلط یعنی صفر ہوگی ۔مثال کے طور پر Z = X + Y یہاں تین متغیرات X, Y, Z متعارف کراوئے گئے ہیں۔ ان میں ہر ایک کی قیمت صفر یا ایک ہوسکتی ہے۔ بولین الجبرا کے قوانین یا اصول متعارفات مندرجہ ذیل ہیں : ( Laws of Boolean Algebra ) اصول متعارفہ-:1 ذاتی عنصر کا وجود-:(Existence of identity Elements) اگر سیٹ K کے دو رکنA اور B ہوں تو سیٹ K میں دو عناصر صفر (0) اور (1) کا وجود ہوتا ہے ۔ جب کہ -1 A + 0 = A -2 A . 1 = A اصول متعارفہ-:2 مبادلہ کا قانون -:( Commutative Law ) اگر A اور B سیٹK کے رکن ہوں تو ثنائی عوامل (+) اور(.) A اور B پر مبادلہ ہوتے ہیں۔ اصول متعارفہ-:3 تلازمہ کا قانون -:( Associative ) اگر A'B اور C کسی سیٹ K کے رکن ہوں تو قانون تلازمہ کے لحاظ سے -1 A + (B + C)= (A + B) + C -2 A .(B.C)= (A.B) .C اصول متعارفہ-:4 قانون تقسیمی -:( Associative ) اس قانون کے لحاظ سے -1 A . (B + C) = A . B + A . C -2 A + (B.C) = (A + B) . (A + C) اصول متعارفہ-:5 معکوس کا وجود -:( Existence of Inverse ) سیٹ K کے ہر رکن A کے لئے سیٹ K میں ایک رکن A موجود ہوتا ہے جب کہ -1 A + A = C -2 A . A = C سوال نمبر -:2 ٹروتھ ٹیبل کیا ہے؟ جواب-: ٹروتھ ٹیبل-:(Truth Table) ٹروتھ ٹیبل ایسا ٹیبل ہے۔ جو کہ بولین جملے کے نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔ جو کہ جملے میں موجود تمام تغیرات کی قیمتوں کی گروہ بندیوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر AND OR ' اور NOT عوامل کے لئے ٹروتھ ٹیبل درج ذیل ہیں : AND OR NOT OPERATION OPERATION OPERATION A X = A A B X = A + B A B X = A. B 0 1 0 0 0 0 0 0 1 0 0 1 1 0 1 0 1 0 1 1 0 0 1 1 1 1 1 1 سوال نمبر -:3 بولین الجبرا کے ارکان (Elements) بیان کریں؟ جواب-: بولین الجبر میں جملہ متغیر اور مستقل مقداروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ -:1 بولین مقداریں-:(Bollean Constants) بولین الجبرا میں مستقل مقداروں کا سیٹ صرف دو ارکان پر مشتمل ہوتاہے صفر اور ایک 0) اور(1 -:2 بولین متغیرات-:(Boolean Variables) بولین الجبرا میں استعمال ہونے والے متغیرات (Z,Y ........ C, B, A) قسم کے ہوتے ہیں ہر متغیر کی صفر اور ایک میں سے کوئی قیمت ہوتی ہیں۔ان دو قیمتوں کو مختلف نام دیئے جا سکتے ہیں ۔ جیسا کہ صحیح (True) اور غلط (False) ، ہاں اور نہیں ، اونچا اور نیچا ، اوپر اور نیچے یا آن اور آف وغیرہ ۔ سوال نمبر -:4 بولین الجبرا میں NOT ، AND اور OR آپریشن پر نوٹ لکھیں؟ جواب-: NOT آپریٹرز-: NOT کے عمل کو کسی متغیر پر بار یا ڈیش ڈال کر ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ X' اور X اور اسے X کا NOT یا X کمپلینٹ کہتے ہے۔ مثلاً اگر X = 0 تب X = 1 AND آپریشن -: AND آپریٹر کو ڈاٹ(.) سے ظاہر کیا جاتاہے۔ یا دو متغیروں کے درمیان علامت کی عدم موجودگی سے اسے منطقی ضرب کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔ مثال کے طور ہر A. B = X یا A B = X اسے A اینڈ B مساوی ہے X کے پڑھتے ہیں۔ پس X وان (1) ہے اگر A اور B دونوں وان (1) کے برابر ہیں ورنہ X صفر ہوگا۔ جیسا کہ ) 1.1 =1 (ii) 1.0 = 0 (iii) 0.1 = 0 (iv) 0.0 = 0 (i OR آپریشن-: OR آپریشن کو دو متغیرات کے درمیا ن جمع کی علامت سے ظاہر کیاجاتا ہے۔ بولین الجبرا میں OR کومنطقی جمع کے لئے استعمال کیاجاتا ہے مثلاً A + B = X اسکو B یا A مساوی ہے X کے پڑھیں گے۔ پس حاصل متغیر X صفر ہوجاتی ہے جب A اور B صفر ہوں ورنہ X کی قیمت وان(1) ہوگی ۔ جیسے کے ذیل : ) 0 + 0 = 0 (ii) 0 + 1 = 1 (iii) 1 + 1 = 1 (i سوال نمبر-:5 بولین جملوں کی قیمت معلوم کیجئے۔ اگر Y = 1 اور X=1 تو (ii)- (X+Y) . (X Y) = ? (i)- XY + XY = ? جواب -: (ii)- (X+Y) . (X Y) when X = 1 and Y = 0 (i)- XY + XY when X = 1 and Y = 0 =(1 + 0 ) . (1 . 0) = ( 1 . 0 ) + ( 1 + 1 ) = 1 . 0 = 0 + 1 = 0 = 1 سوال نمبر -:6 (X + Y) . (XY) ایک بولین جملہ ہے اس کے لئے ٹروتھ ٹیبل(Troth Table) بنائیے۔ جواب-: (X + Y) . (XY) کے لئے ٹروتھ ٹیبل(Troth Table) درجہ ذیل ہے: ( X + Y ) . ( X Y) X Y X + Y X X 0 0 0 0 0 0 0 1 1 0 0 0 1 0 1 1 1 1 1 1 سوال نمبر-:7 بولین جملے A C + A . B + A B C + B C کو مختصر کیجئے۔ جواب-: بولین جملے AC + A . B + A B C + B C کو مندرجہ ذ یل طریقے سے مختصر کیا جا سکتا ہے : AC + A . B + A B C + B C = AC + A . B + C {(B + A) . (B+ B)} = AC + A . B + C (B + A) . 1 = AC + A . B + C (B +A) = AC + A . B + BC + AC = C (A + B + A) + AB = C (A + A + B) + AB = C (1 + B) + AB = C . 1 AB = C + AB سوال نمبر-:8 خالی جگہ پُر کریں۔ -:1 1854 ء میں ایک برطانوی ریاضی دان جارج بول نے بولین الجبرا متعارف کرایا۔ -:2 1938 ء میں شانن نے بولین الجبرا میں دو قیمتیں متعارف کرائیں۔ -:3 بولین الجبرا میں تقسیم او ر تفریق کی علامتیں نہیں ہیں۔ -:4 بولین الجبرا میں صفر دو اعداد صفر (0) اور ایک (1) استعمال ہوتے ہیں۔ -:5 لوجیکل آپریٹر تین اقسام کے ہیں۔ -:6 گیٹ ایک الیکٹرانک سرکٹ ہے۔ -:7 سوئچنگ الجبرا شانن نے متعارف کرایا تھا۔ -:8 بولین الجبر میں جملہ متغیر اور مستقل مقداروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ -:9بولین الجبرا میںOR آپریشن کو دو متغیرات کے درمیا ن جمع کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ -:10 بولین الجبرا میں AND آپریٹر کو ڈاٹ(.) سے ظاہر کیا جاتاہے۔ باب نمبر7 کمپیوٹرسافٹ ویئر(Computer Software) سوال نمبر-:1 کمپیوٹر سافٹ ویئر سے کیا مراد ہے۔ ہم سافٹ ویئرکو کیوں استعمال کرتے ہیں۔ نیز سافٹ ویئر کے کتنے اقسام ہیں۔ جواب -: سافٹ ویئر (Software) -: کمپیوٹر کے پروگرامز جس کی ہارڈ وئیر کو چلانے کے لئے ضررورت پڑتی ہیں۔ سافٹ وئیر کہلاتے ہیں۔یعنی ہدایات کا وہ سیٹ جس کے ذریعے کمپیوٹر کو بتایا جاتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔مثلاً ڈاس ' ونڈوز' ایم ایس آفس 'ان پیج وغیرہ۔ سافٹ ویئر کو کمپیوٹر کی ڈرائیونگ فورس (Draving Force) یا پروگرام بھی کہا جاتا ہے۔ سافٹ وئیر کے بغیر کمپیوٹر صرف ایک اچھی طرح سے بنے ہوئے برقی آلے اور سرکٹس کی مانند ہوگا۔جب کہ ہارڈ ویئر سے مراد کمپیوٹر کے کل پرزاجات ہے۔یعنی کی بورڈ ، ماؤس ، سی پی یو ، مانیٹر وغیرہ۔ کمپیوٹر سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیرکی مثال ایک کپڑیا بنانے والے مشین اور اس کے لئے اون یا دھاگے کی طرح ہے۔ کہ اُس وقت تک ہم مشین سے کپڑا تیار نہیں کر سکتے جب تک مشین میں دھاگے نہ ڈالا جائے ۔ اس طرح ہارڈ وئیر سے بھی ہم کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک اس میں سافٹ ویئر نہ ہو ۔ کمپیوٹر سافٹ وئیر کے اقسام-: سافٹ وئیر کی دو بڑی اقسام ہیں۔ (1) سسٹم سافٹ وئیر (2) اپلیکیشن سافٹ وئیر۔ (1) سسٹم سافٹ وئیر -:(System Software) سسٹم سافٹ وئیر کمپیوٹر کی کارکردگی کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف آلات مثلاً مانیٹر ، پرنیٹر اور سٹوریج ڈیوائسزکے کاموں کو کنٹرول کرتاہے۔اسے ہارڈوئیراورینٹیڈ سافٹ وئیر بھی کہتے ہے۔ آپریٹنگ سسٹم اس کی ایک مثال ہے۔ (2) اپلیکیشن سافٹ وئیر-:(Application Software) اپلیکیشن سافٹ وئیر یا اطلاقی سافٹ وئیروہ تیار شدہ پیکیجیز یا پروگرامز ہوتے ہیں جو کہ سسٹم سافٹ وئیر میں استعمال کئے جاتے ہیں۔مثلاً ورڈ پروسیسر ، سپریڈ شیٹس ، ڈیٹابیس اور مالٹی میڈیا و کمیو نیکیشن پیکیجیز وغیرہ ۔ سوال نمبر-:3 ڈاس (DOS) کیا ہے ؟ ڈاس کے انٹرنل اور ایکسٹرنل کمانڈزکی تعریف بیان کریں۔ جواب-: مائیکرو کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والا سنگل یوزر آپریٹنگ سسٹم ڈاس کہلاتاہے جو ڈسک آپریٹنگ سسٹم کا محفف ہے۔ ڈاس ان پٹ اور آؤٹ پٹ کے طریقوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یوزر کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ پروگرام کو لوڈ کر سکے اور چلا سکے ڈاس مائیکرو کمپیوٹر کی تاریخ میں انتہائی کامیاب آپریٹنگ سسٹم ہے۔چونکہ نئے امپرووڈ(Improved) مائیکرو پروسیسر ڈویلپ ہو گئے ہیں لہذا آپریٹنگ سسٹم بھی اپ ڈیٹ ہو گیے ہیں۔اور ڈاس کے مختلف ورژن بھی بنائے گئے ہیں۔ مثلاًMS-DOS 3.0 ، MS-DOS 3.1 ، MS-DOS 4.0 ، PC-DOS 5.0 ، اور انتہائی نئی ورژن DOS 7.0 اور DOS 8.0 ہیں۔ MS-DOS اور PC-DOS کی پرانی ورزن کمانڈز تھیں جس کی دو اقسام ہیں * انٹرنل کمانڈز اور * ایکسٹرنل کمانڈز -:1 انٹرنل یا اندرونی کمانڈز (Internal Commands) : جب ہم کمپیوٹر چلاتے ہیں تو ڈاس اندرونی کمانڈز فائل میں ذخیرہ ہوتی ہیں جسے ڈائریکٹری کی سیٹنگ میں کبھی نہیں دیکھ سکتے ۔جو کہ بووٹ اپ پروسیس کے دوران خود بخود میموری پر لوڈ ہوتی ہے۔ یہ کمانڈز ہمیشہ ریم میں موجود ہوتی ہیں۔ ڈاس کے انٹرنل کمانڈز مندرجہ ذیل ہیں۔ CLS , DIR , DIR Switches , DATE , TIME , COPY CON , TYPE , REN , DEL/ERASE , MD/MKDIR , CD/CHDIR , RD/RMDIR , COPY , VER , VOL , REM , PROMPT,PATH. -:2 ایکسٹرنل یا بیرونی کمانڈز (External Commands) : بیشتر ڈاس کمانڈز جو کے عام طور پر اکثر استعمال نہیں ہوتیں سوائے سپیشل عوامل کے بیرونی کمانڈز کہلاتی ہیں۔یہ کمانڈز یوزر کو ڈاس فائل کے انتظامات اور میموری کی سہولیات تک رسائی دیتے ہیں۔ کچھ بیرونی ڈاس کمانڈز مندرجہ ذیل ہیں: CHKDSK , COMP, DISKCOPY, DELTREE,EDIT,FORMAT, PRINT,SORT, LABEL,XCOPY انٹرنل یا اندرونی کمانڈز (Internal Commands) DIR Command {1} اس کمانڈ کے ذریعے ہم تمام فائلوں اور ڈایر یکٹریوں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر) C:\> DIR Dir/P Command {2} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم تمام فائل اور ڈایر یکٹریوں کی فہرست صفحہ در صفحہ دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر) C:\> Dir/P Dir/W Command {3} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم تمام فائل اور ڈایر یکٹریوں کی فہرست چوڑائی کے رُخ دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔(انٹر)C:\> Dir/W mand {4} DIR/AH Com -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم تمام چپُھے ہوئے(Hidden) فائلوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر) C:\>DIR/AH MEM Command {5} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم کمپیوٹر کے ہارڈ ڈسک کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر)C:\> MEM VER Command {6} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم آپریٹنگ سسٹم یعنی ڈاس یا ونڈوز کے ورژن کو دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر)C:\> VER VOL Command {7} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم ڈیسک کے والیم لیبل اور سریل نمبر کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر)C:\> VOL Copy Con Command {8} (Create File) -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم نیا فائل بناسکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر)C:\> Copy Con File Name (انٹر) Write data (F6) مثال :۔ (انٹر) C:\>Copy Con Rahmat (انٹر)Saqib is my best friend. (F6 or Ctrl Z) Type Command {9} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی فائل کے اندر ڈیٹا دیکھ سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ (انٹر) C:\>Type File name مثال :۔ (انٹر) C:\>Type Rahmat REN Command {10} (Rename File) اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی فائل کا نام تبدیل کر سکتے ہیں۔ یعنی ڈیٹا وہی رہے گا صرف فائل کا نام تبدیل ہو جائے گا ۔ طریقہ:۔ (انٹر) C:\> Ren OldFileName New File Name مثال :۔ (انٹر) C:\>REN Rahmat Anam / ERASE Command {11} DEL (Delete File) اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی فائل کو ڈیلیٹ یعنی ختم کر سکتے ہیں طریقہ نمبر1:۔ (انٹر) C:\> Del FileName طریقہ نمبر2:۔ (انٹر) C:\>ERASE FileName مثال نمبر 1 :۔ (انٹر) C:\>DEL Anam مثال نمبر2 : (انٹر) C:\>ERASE Anam -:(Make Directory) MD / MKDIR Command {12} MD یا MKDIR کمانڈ کے ذریعے ہم ایک نئی ڈائریکٹری بنا سکتے ہیں طریقہ (انٹر) C:\> MD / MKDIR Dir Name مثال (انٹر) C:\> MD / MKDIR Saqib -: RD / RMDir Command {13} RD یا RMDir کمانڈ کے ذریعے ہم ڈائریکٹری کو ختم کر سکتے ہیں۔ طریقہ (انٹر) C:\>RD Directory Name مثال (انٹر) C:\>RD / RMDir Saqib CD / CHDir Command {14} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی ڈائریکٹری کو تبدیل کر سکتے ہیں یعنی CD کمانڈکے ذریعے ہم موجودہ ڈائریکٹری کو دیکھ سکتے ہیں یا اس کے اندر ر داخل ہو سکتے ہیں۔ طریقہ (انٹر) C:\>RD / CHDir Directory Name مثال (انٹر) C:\>RD or CHDir Saqib {15} CD.. Command -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی ڈائریکٹری سے باہر نکل سکتے ہیں۔ طریقہ (انٹر) C:\> CD.. اس کمانڈ کے ذریعے ہم اگر ایک وقت میں کئی ڈائریکٹری کے اندر کام کر رہے ہوں تو ان سے باہر نکلنے کے لیے یہ کمانڈاستعمال کر سکتے ہیں۔یعنی ایک سے زیادہ ڈائریکٹریوں سے نکلنے کیلئے ہم CD\ (سی ڈی بیک سلیش) کمانڈ استعمال کرتے ہیں۔ طریقہ (انٹر) C:\>CD\ مثال (انٹر) C:\WORK\RAHMAT\NOTES> CD\ DATE Command {17} -:اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی کمپیوٹرمیں موجودہ تاریخ کو دیکھ سکتے ہیں اور تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ طریقہ و مثال ------------:: (انٹر) C:\>DATE Current date is 20-12-2004 (انٹر) Enter new date(mm-dd-yy): 1-1-2005 TIME Command {18} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم کسی کمپیوٹرمیں موجودہ وقت کو دیکھ او ر تبدیل کر سکتے ہیں طریقہ و مثال ------------:: (انٹر) C:\>TIME Current time 12:30:10:02 (انٹر) Enter new time: 4:23 or 4.23 COPY Command {19} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم ایک یا ایک سے زیادہ فائلوں کو کسی اور مقام پر کاپی کر سکتے ہیں طریقہ:۔ (انٹر) C:\>Copy Source(F/N) Targete(Dir/N) مثال-: (انٹر) C:\>Copy Rahmat Anam Note:- Rahmat is File Name & Anam is Directory Name مثال نمبر2 -: (انٹر) C:\>Copy *.EXE A:\Saqib نوٹ -: اس مثال کے ذریعے ہم تمام EXE ایکسٹینشن والے فائل A:\> ڈرایؤ کے Saqib نام کی ڈائریکٹری میں کا پی کرسکتے ہیں۔ PATH Command {20} -: پاتھ کمانڈ ڈائریکٹری میں موجود فائل کے مقام کو مخصوص کرتاہے۔ یہ ایک اندرونی کمانڈ ہے۔ جو کہ میموری پر ذخیرہ ہوتی ہے تاکہ جب آپ سسٹم کو چلانا چاہیں یہ آپ کے لئے موجود ہو۔ پاتھ کمانڈ کو ہم Autoexec.BAT فائل میں کچھ اسطرح لکھتے ہیں۔ طریقہ -: SET PATHC:\TC\Bin; C:\JDK\Bin;............ PROMPT Command {21} -: پرامپٹ کمانڈکی مدد سے ہمموجودہ ڈاس پرامپٹ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ طریقہ -: C:\>PROMPT [{TEXT} {$CHARACTOR}] enter مثال نمبر-:1 C:\>PROMPT $D enter (To Show Current Date) مثال نمبر-:2 C:\>PROMPT $T enter (To Show Current Time) مثال نمبر-:3 C:\>PROMPT $ Name enter (To Show Current Name) مثال نمبر-:4 C:\>PROMPT $G$P (To Show Own Prompt [C:\>]) ایکسٹرنل یا بیرونی کمانڈز (External Commands) {1} CHKDSK Command -: یہ کمانڈ کسی ڈسک کے درست ہونے کو چیک کرتی ہے۔ اور ٹوٹل جگہ فائلز کی تعداد ' ڈسک پر موجود خالی جگہ ' ریم کی کل اور موجودہ تعداد کے متعلق رپورٹ کرتی ہے۔ (انٹر)Syntax :- CHKDSK [drive:][/f][v] {2} DELTREE Command -: اس کمانڈ کے ذریعے ڈائریکٹری میں موجود فائلز اور سب ڈائریکٹریز کو ختم کر سکتے ہیں۔ (انٹر)Syntax :- DELTREE [/y] [pathname] ُُُ (اگر /y سوئچ شامل نہیں کیا تو Deltree کمانڈ پرامپٹ کرے گا کہ آپ تمام ڈائریکٹریز کو ختم کرنے کیلئے Y ٹائپ کریں یا N تاکہ تمام ڈائریکٹریز کو برقرار رکھا جا سکے) مشال-: C:\>DELTREE DOS (Enter) مثال -: C:\>DELTREE A:\ *.* (Enter) {3} DISKCOPY Command -: اس کمانڈ کے ذریعے ایک ڈسک سے دوسری ڈسک پر فہرست نکل سکتے ہیں۔ Syntax : C:\>-CISKCOPY [source drive:][ targate drive مشال-: C:\>DISKCOPY A: A: (Enter) {4} EDIT Command -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم ڈاس ایڈیٹر (DOS Editor) کو شروع کر سکتے ہیں۔جس میں ہم ایک نئے فائل کو بنا بھی سکتے ہیں اور اس میں کمی بیشی بھی کر سکتے ہیں۔ (انٹر)Syntax :- EDIT [[drive: [path] filename] {5} FORMAT Command -: یہ کمانڈڈسک کو استعمال میں لانے سے پہلے ڈسک کو تیار کرتی ہے۔ (انٹر)Syntax :- FORMAT drive: [/switches] Switches :- V =volume , Q=quick ,S=system etc مثال نمبر -:1 C:\>Format A:/S/Q (Enter) مثال نمب-:2 C:\>Format D:/Q (Enter) {6} PRINT Command -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم ڈاس میں کسی ٹکسٹ فائل کو پرنٹ کر سکتے ہے۔ Syntax:-PRINT[drive:][pathname][/d:device][/q:value][/t][/c][/p] XCOPY Command {7} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم فائلز ‘ ڈائریکٹریز اور سب ڈائریکٹریز کو کا پی کر سکتے ہیں۔ طریقہ:۔ C:\>XCopy Source [Destination] [/A|/M] [/P][/S] مثال-: (انٹر) C:\>XCopy *.* D:\ /S /E MOVE Command {8} -: اس کمانڈ کے ذریعے ہم فائلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہٹا سکتے ہیں اور ڈائریکٹری کانام بھی تبدیل کر سکتے ہیں طریقہ نمبر۱-: (انٹر) C:\>Move OldDirname New Dirname طریقہ نمبر-:2 (انٹر) C:\>Move FileName DirName باب نمبر8 ونڈوز کا تعارف (Introduction to Windows) سوال نمبر-:1 آپریٹنگ سسٹم سے کیا مراد ہے؟ مختلف اقسام کے آپریٹنگ سسٹم بیان کریں۔ جواب : آپریٹنگ سسٹم خاص قسم کے پروگراموں کا سیٹ ہوتاہے جو کہ کمپیوٹر کے استعمال کو آسان بناتا ہے، کمپیوٹر کی تمام افعال کی نگرانی کرتاہے اور استعمال کنندہ (User) کی ضرورت کو مؤثر بناتاہے۔ مختصر یہ کہ آپریٹنگ سسٹم کمپیوٹر اور یوزر کے درمیان تعلق اور انٹر فیس کانام ہے۔جسے کنٹرول پروگرام کہتے ہیں۔جو کہ تمام وقت کمپیوٹر کی میموری (RAM) میں موجود ہوتا ہے۔اور جیسے ہی کمپیوٹرآن(ON) کیا جاتاہے۔ آپریٹنگ سسٹم لوڈ ہوجا تا ہے اور اپنا کام شروع کرتاہے۔ آپریٹنگ سسٹم مشین تک رسائی کو کنٹرول کرتاہے۔ یہ انٹرنل میموری میں ڈیٹا اور معلومات کا انتطام کرتا ہے۔ اور دوسرے سوفٹ ویئر پروگرام چلانے کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ آپریٹنگ سسٹم کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں : * سنگل یوزر آپریٹنگ سسٹم * ملٹی یوزر آپریٹنگ سسٹم -:1 سنگل یوزر آپریٹنگ سسٹم (Single User Operating System) : ایسا سسٹم جسکو صرف ایک یوزر ایک ہی وقت میں کنٹرول کر سکے سنگل یوزر آپریٹنگ سسٹم کہلاتا ہے۔ یہ سسٹم ذاتی یا مائیکرو کمپیوٹر پر استعمال ہوتاہے۔ اور انفرادی مشینوں پر لگا ہوتا ہے۔چند اہم سنگل یوزر آپریٹنگ سسٹم یہ ہیں:MSDOS ، PCDOS ، OS/2 اور Windows -:2 ملٹی یوزر آپریٹنگ سسٹم (Single User Operating System) : یہ سسٹم بڑے کمپیوٹر سسٹم پر کمرشل، سائنٹفیک اور انجینئرنگ ڈیٹا پروسینگ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ایک آپریٹنگ سسٹم ملٹی پروگرامنگ ، ملٹی پروسینگ اور تائم شیئرنگ صلاحیتوں کی بناء پر کمپیوٹر سسٹم کی طاقت کو بڑھاتا ہے۔ چند اہم ملٹی یوزر آپریٹنگ سسٹم یہ ہیں :UNIX / ZENIX ، LAN ، WAN ، Windows NT سوال نمبر-:2 ونڈوز (Windows) کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ جواب : مائیکروسافٹ کمپنی نے 1985 ء میں ونڈوز آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا۔ پہلی بار ونڈوز تھری میں ماؤس اور مختلف مینوز پر مشتمل کمانڈز کی سہولت مہیا کی گئی ۔ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کمپیوٹر اور یوزر کے درمیان تعلق اور انٹر فیس کا نام ہے۔یہ پوائنٹنگ ڈیوائس مثلاً ماؤس ، گرافک ٹیبلٹس اور لائٹ پین وغیرہکی استعمال کی وجہ سے ٹھیک آسان اور تفریح سے بھر پور کمپیوٹر آپریٹ کرنے کا موحول مہیا کرتا ہے۔ایم ایس ڈاس ایک مکمل کمانڈ انٹر فیس آپریٹنگ سسٹم ہے ۔ اور ونڈوز ایک (Graphical User Interface) GUI آپریٹنگ سسٹم ہے۔مطلب یہ کہ ونڈوز میں یوزر کمانڈ کو گرافکس (تصاویر) کی صورت میں سلیکٹ کرتا ہے۔ اور اس میں ہم مختلف کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ مثلاً ڈیٹا داخل کرنا ، ویڈیو چلانا ، پروگرام ران کرنا ، لکھائی کے سٹائل تبدیل کرنا ، لائنوں کو نمبر لگانا اور سپیلنگ چیک کرنا وغیرہ ۔ یہی وجہ ہے کہ ونڈوز نے یوزر کے کام کو انتہائی آسان بنادیا ہے۔ اس کو ونڈوز اس لئے کہا جاتا ہے۔ کہ یہ ہر کمانڈ یعنی پروگرا م کو ایک علیحدہ ونڈو میں کھولتا ہے۔اور اس میں ہم ایک سے زیادہ پروگراموں کو چلاسکتے ہیں۔ مثلاً ایک طرف ہم ایم ایس ورڈ میں خط یا درخواست وغیرہ لکھ رہے ہے۔اور دوسری طرف ان پیج میں اردو کا کام یا گانا سُن رہے ہے۔جب کہ ڈاس میں ہم صرف ایک کام کر سکتے ہے۔ مائیکرو سافٹ نے 1990 ء سے اب تک ونڈوز کے مختلف ورژن متعار ف کرائے ہیں۔ جس میں ونڈوز 3 ، ونڈوز 95 ، ونڈوز98 ، ونڈوز این ٹی(NT) ، ونڈو می(ME) ، ونڈوز2000 اور ونڈو ز ایکس پی (XP) شامل ہیں۔ونڈوز کے ان تما م ورژن میں سب سے اہم ونڈوز این ٹی ہے۔ جس میں ڈاس (DOS) او ر یونیکس (UNIX) کے استعمال کی بھی سہولت ہے۔اسے زیادہ تر کمپیوٹر نیٹ ورکس کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔اس لئے اسے (Client/Server) آپریٹنگ سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔ سوال نمبر-:3 وائرس کیا ہے؟ یہ کیا کرتاہے۔ اس کی کتنی اقسام ہیں۔ نیز اینٹی وائرس پروگرام کا تعارف کرائیں۔ جواب-: وائرس (Virus) -: وائرس سے مراد ایسا پروگرام ہے۔ جو از خود ایک فائل میں ، ایک سب ڈائریکٹری سے دوسرے سب ڈائریکٹری میں اور ایک فاسسٹم سے دوسرے سسٹم میں کاپی ہونے اور خرابی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وائرس ڈسک پر چھپا رہتا ہے۔ جب آپ ڈسک پر کام کرتے ہیں۔ تو وائرس پروگرام متحرک ہو جاتا ہے۔ اور کمپیوٹر کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سب سے پہلا وائرس پروگرا م فریڈ کوہن نے 1983 ء میں لکھاتھا ۔ اور صرف چھ سال کے عرصے میں ہی یعنی 1990 ء تک وائرس خطرناک وبا کی شکل میں پھیل گیا۔ وائرس کیسے پھیلتا ہے۔ اور کیا کرتا ہے؟ -: وائرس زیاد ہ تر فلاپی کے ذریعے ، نیٹ ورک کے ذریعے ، ایک ہارڈ ڈسک کا دوسرے ہارڈڈسک کے ساتھ کمپیوٹر کے ان ہونے پر اور انٹرنیٹ کے ذریعے پھیل کر کمپیوٹر کو متاثر کر سکتا ہے۔ جب وائرس متحرک ہوتاہے۔ تو یہ کئی طرح کی خرابی پیدا کرتا ہے۔ بعض قسم کے وائرس ڈسک کو فارمیٹ کر دیتے ہیں۔ بعض وائرس فائلوں کو خراب کر دیتے ہیں یا ختم کر دیتے ہیں۔ جب کہ بعض وائرس ہارڈ ڈسک کی حصے(Partitions) کو اُڑا دیتے ہیں۔یعنی ختم کر دیتے ہیں۔ وائرس کی اقسام -:(Type of Virus) وائرس کی بہت سی اقسام ہیں مثلاً مائیکرو وائرس ، Devolving وائرس ، بوٹ سیکٹر وائرس ، TSR و Non TSR وائرس ، Companion وائرس ، Overwriting وائرس اور Multipartite وائرس وغیرہ ان میں اہم ترین اور سب سے بڑی وائرس مندرجہ ذیل دو اقسام کے ہیں۔ -:1 فائل وائرس -:(File Infector) یہ عام قسم کا وائرس ہے۔ یہ پروگرام فائلوں کے کوڈ کے ساتھ وائرس کا اضافہ کر دیتاہے۔ اس لئے جب متاثرہ پروگرام چلایا جاتا ہے تو دوسری پروگرام فا ئلیں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔ -:2 بوٹ سیکٹر وائرس -:(Boot-Sector Virus) یہ وائرس ڈسک کے بوٹ سیکٹر سے جڑ جاتا ہے۔ بوٹ سیکٹر ڈسک کا وہ حصہ ہے۔ جس پر ابتدائی ہدایات اورفائلوں کے بارے میں ابتدائی معلومات درج ہوتی ہے۔اس قسم کے وائرس انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اینٹی وائرس (Antivirus) پروگرام کیا ہے ؟ -: ایک اینٹی وائرس پروگرام کمپیوٹر پر وائرس کا سراغ لگانے او ر اسے ختم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مارکیٹ میں مختلف قسم کے اینٹی وائرس پروگرام استعمال کئے جا رہے ہیں مثلاً نورٹران ، پی سی سیلین ، اے وی جی اور مِکیفے وغیرہ۔ آئے دن نت نئے وائرس سامنے آتے رہتے ہیں اس لئے ا ینٹی وائرس بنانے والی کمپنیاں نئے اینٹی وائرس پروگرام بھی اپنے گاہکوں کو مہیا کرتی رہتی ہیں۔ سوال نمبر-:4 ونڈوز میں استعمال ہونے والے کی بورڈشارٹ کٹس اور ان کا استعمال بیان کریں۔ جواب-: ونڈوز میں استعمال ہونے والے کی بورڈشارٹ کٹس (Shortcuts ) اور ان کا استعمال حسبِ ذیل ہیں: -: F1 (i) ونڈوز یا موجودہ ڈائیلاگ باکس کی Help کے لئے۔ -: F2 (ii) منتحب شدہ آئیکن کا نام تبدیل کرنے کے لئے۔ -: F3 (iii) Find کے لئے یعنی کوئی فائل یا فولڈر تلاش کرنے کے لئے ۔ اس کیلئے ونڈو بٹن F + بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ -: F5 (iv) Refresh کے لئے۔ -: F10 (v) کسی پروگرام کے مینو بار کو منتحب کرنے کے لئے۔ -: Alt + Tab (vi) ایک ونڈو سے دوسرے ونڈو میں جانے کے لئے۔ -: Alt + Enter (vii) منتحب شدہ آیئکن کی پراپرٹیز معلوم کرنے کے لئے۔ -: Alt + F4 (viii) بند کرنے کے لئے چاہے وہ کوئی ونڈو ہو یا کوئی ڈائیلاگ باکس -: Ctrl + C (ix) منتحب شدہ آبجیکٹ کاپی کرنے کیلئے۔ -: Ctrl + X (x) منتحب شدہ آبجیکٹ ختم کر کے کلپ بورڈ میں لے جانے کیلئے۔ -: Ctrl + V (xi) کاپی یا کٹ شدہ آبجیکٹ کو چسپا(Paste) کرنے کیلئے۔ -: Ctrl + A (xii) تمام آبجیکٹ منتخب کرنے کیلئے۔ -: Ctrl + Esc (xiii) سٹارٹ مینو کھولنے کیلئے۔ سوال نمبر-:5 خالی جگہ پُر کریں۔ -:1 GUI مخفف ہے۔ Graphical User Interface ۔ -:2 BIOS مخفف ہے۔ Basic Input Output System. -:3 MBR مخفف ہے۔Master Boot Record ۔ -:3 FAT مخفف ہے۔ File Alocation Table ۔ -:5 TSR مخفف ہے۔ Terminate-and-Stay-Resident ۔ -:6 Fdisk کمانڈ ہارڈ ڈسک کیPartitions کیلئے استعمال ہوتا ہے -:7 مائیکروسافٹ کمپنی نے 1985 ء میں ونڈوز آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا۔ -:8 ونڈوز NT ایک ملٹی یوزر آپریٹنگ سسٹم ہے۔ -:9 DOS کا مطلب ہے ڈیسک آپریٹنگ سسٹم۔ -:10 ڈاس ایک کمانڈ بیس آپریٹنگ سسٹم ہے۔ -:11 Start بٹن سٹارٹ مینو کھولنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ -:12 Shut Down کمانڈ کمپیوٹر کو بند کرنے کے لئے استعمال کرتے ہے -:13 آپریٹنگ سسٹم کے دو اقسام ہیں سنگل یوزر اور ملٹی یوزر O/S ۔ -:14 سب سے پہلا وائرس پروگرا م فریڈ کوہن نے 1983 ء میں لکھاتھا۔ -:15 اینٹی وائرس پر وگرام کمپیوٹر پر وائرس کا سراغ لگانے اور اسے ختم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ باب نمبر 1 کمپیوٹر کا تعارف(Introduction to Computer) اردو ہے جس کا نام
owners ہندی، اردو اور ہندوستانی۔۔ مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں"ہندی اردو اور ہندوستانی" — مجھے اب خاصا پامال مضمون معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کوئی زبان کا ماہر، اس میں، ندرت بیان کا کوئی نمونہ پیش کرسکے۔ مگر مجھ جیسے کوتاہ بیان کو اس میں خاصی دقت کا سامنا ہے۔ یہ دقت ویسی ہی ہے جیسی ہندومسلم ایکتا پر بولنے میں ہوتی ہے، جس میں بقیہ مذہبی گروہوں کو چھوٹی امت سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ گویا ہندومسلمان شیر و شکر ہو جائیں تو بقیہ مختصر سی آبادی کی کیا پرواہ۔ پرانے زمانے کی بات اور تھی۔ اب یہ بات مجھے جمہوری مزاج کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندی اردو اور ہندوستانی پر گفتگو، اس لسانی بو قلمونی (Linguistic Diversity) سے ہماری توجہ ہٹاتی ہے جو حیاتیاتی بو قلمونی (Bio-diversity) کی طرح سرزمین ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا ایک بڑا وصف ہے۔ سوائے پپوانیوگنی (Papua New Guinea) کے اتنی لسانی بو قلمونی کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس کو لاحق خطرہ بھی حیاتیاتی بو قلمونی (Bio-diversity) کو لاحق خطرے کی طرح سنگین نتائج کا حامل ہے۔ حیاتیاتی بو قلمونی کو لاحق خطرات پر سائنسی برادری میں ہل چل ہے۔ حکومت بھی کسی حد تک متوجہ ہو رہی ہے۔ مگر زبان اور ثقافت کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر گفتگو بھی ذرا کم ہی ہو رہی ہے اور عملی اقدام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے زبان اور ثقافت کے مسئلے کو اپنے طور پر دسترساز اسمبلی میں حل کر لیا اور قانع ہو گئے۔ لیکن زبان اور ثقافت کا مسئلہ محض قانون کے ذریعہ حل نہیں ہوتا۔ دیگر سماجی اور سیاسی محرکات بھی اپنا کام کرتی ہیں۔ آزاد اور جمہوری سماج نے، جو موقع ہمیں گزشتہ آدھی صدی میں فراہم کیا تھا، اس میں ہم نے ثقافتی پالیسی کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی ہے۔ لہٰذا اب کھلی معیشت، آزاد منڈی اور اطلاعات کے آزادانہ بہاؤ، سے ابھرنے والے خطرات کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ہندی جو کئی ریاستوں کے علاوہ مرکزی سرکار کے کام کاج کی زبان بنائی گئی اور جس کی ترقی کے لیے سرکاری خزانہ کا منہ کھول دیا گیا، اس کے بعض ہمنوا اب ہنگلش (Hinglish) کی بات کر رہے ہیں۔ 2008 میں ہندی دیوس کے موقع پر ایک سرکاری چینل نے اس موضوع پر ایک مباحثہ کرایا۔ اس میں شریک ایک مرکزی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ ہندی نے ہنگلش کی حمایت کی اور اسے لسانی ارتقاء سے تعبیر کیا—شتر مرغ کے بارے میں سنا ہے کہ وہ خطرے کی آہٹ پر اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے۔ ترکی کے ناول نگار، اور ہان پامک کے ناول اسنو (Snow) میں اس کا ایک کردار، رستم وسہراب کی کہانی سناتا ہے اور پھر کہتا ہے: "میں نے یہ کہانی تمہیں اس لیے نہیں سنائی کہ میری زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے یا میری زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے ؛ بلکہ یہ بتانے کے لیے سنائی کہ اب اسے بھلا دیا گیا ہے ....ہزار سال پرانی یہ کہانی فردوسی کے شاہنامہ کی ہے۔ ایک وقت تھا جب تبریز سے استنبول تک اور بوسنیا سے ترب زون تک لاکھوں لوگوں کو یہ کہانی یاد تھی۔ وہ جب بھی اسے دہراتے، اسے اپنی زندگی میں بامعنی پاتے۔ یہ کہانی ان کے لیے ویسی ہی اہم تھی جیسی پوری مغربی دنیا کے لیے اوڈپس کے ذریعہ باپ کا قتل یا میکبیتھ کو اقتدار اور موت کا خوف۔ مگر اب چونکہ ہم مغرب کے طلسم میں گرفتار ہیں، ہم اپنی ان کہانیوں کو بھول گئے ہیں۔ ہماری نصابی کتابوں سے ایسی تمام پرانی کہانیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ ان دنوں استنبول میں ایک بھی کتب فروش ایسا نہیں جس کے پاس شاہنامہ موجود ہو۔" یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ عہد وسطیٰ میں بلاد اسلامیہ کے نام سے یاد کیے جانے والے خطہ، یعنی ترکی سے مرکزی ایشیا تک اور جنوبی ایشیا سے افریقہ کے متصل علاقہ تک بولی جانے والی زبانوں میں ایک مشترکہ نظریۂ حیات کی پرورش ہوئی جس میں اسلامی عقائد، یونانی اور سنسکرت فلسفہ، دیگر مذاہب کی روایتیں اور رسوم و رواج مل کر شیر و شکر ہو گئے۔ اس کا ارتقاء فارسی میں عمر خیام، مولانا روم حافظ سعدی و نیز امیر خسرو سے بیدل تک ہوتا رہا۔ یہ نظریہ حیات اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ، ترکی، اردو اور مرکزی ایشیا کی زبانوں میں در آیا اور اس نے ثقافتی سطح پر ایک مشترکہ ایشیائی فکر کو جنم دیا۔ اس لیے رستم وسہراب کا المیہ، میکبتھ یا اوڈی پس کے المیہ سے اسی طرح الگ ہے جس طرح مشرقی اور مغربی شاعری کا مزاج الگ ہے۔ اس تہذیبی فرق اور ثقافتی کشمکش کو پامک نے اپنے نوبل انعام یافتہ ناول My Name is Red میں سولہویں صدی کے پس منظر میں بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ اب ہم ترکی ادب کا مطالعہ انگریزی کی مدد سے کرنے پر مجبور ہیں اور مشترکہ ایشیائی فکر کی زبانیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتی جا رہی ہیں —جو نصابی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، جو ادب دستیاب ہے، الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے، ان کی حیثیت ایک تہذیبی یلغار کی ہے —اور نتیجہ سامنے ہے۔ ہندوستان کی صورتحال یہ ہے کہ 1835 میں لارڈ ٹی۔ بی۔ میکالے نے رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی مگر ذہن و مذاق کے اعتبار سے انگریز افراد پیدا کرنے کا جو خواب دیکھا تھا۔ اس کی تکمیل گلوبلائزیشن یعنی نئی جغرافیائی وسعت، اور انسانی زندگی کی نئی پنہائیوں پر محیط عالمی نظام، کثیر ملکی کمپنیوں کے ذریعہ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے استعمال، عالمی سٹہ بازاری، بلا روک بین ملکی سرمایہ کاری ون یز قومی حکومتوں کے اقتدار میں کمی اور قومی زبانوں کی پسپائی کی شکل میں نمودار ہو رہی ہے —اور ان سب کے نتیجہ میں متبادل فکر اور ان زبانوں سے وابستہ متبادل نظریۂ حیات، سمٹ سکڑ رہا ہے جو بالآخر ثقافتی بوقلمونی کا خاتمہ کر کے یک رنگی دنیا کو جنم دے سکتا ہے — ایک بڑے معیار بند بازار کی تشکیل، جس کی زبان اور اقدار مشترک ہوں، کثیر قومی کمپنیوں کے لیے تجارتی آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ حیاتیاتی بو قلمونی اور ثقافتی ولسانی بوقلمونی کو درپیش خطرات کی وجہیں بڑی حد تک مشترک ہیں۔ جنگلوں کا بے دریغ کٹنا، انواع واقسام کے نباتیاتی نمونوں کا فنا ہونا، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی انمول انواع کا ختم ہونا و نیز زبانوں اور ثقافتوں پر نازل آفت کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور اپنی بقاء کے لیے ایک دوسرے پر منحصر بھی۔ ترقی یافتہ ممالک اعداد و شمار کو حاصل کرنے، ان کو محفوظ رکھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی تکنالوجیکل برتری کی وجہ سے برق رفتاری سے ایسے فیصلے کرسکتی ہیں جو ان کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع بخش ہو۔ انگریزی زبان اور اس کی جلو میں آنے والے اقدار و افکار کا پھیلنا اس کام میں ان کی معاونت کرتا ہے۔ اس سے جہاں کثیر قومی کمپنیوں کی ترقی ہو رہی ہے وہیں اس سے پسماندہ ممالک میں معیشت اور تمدن ہی نہیں خود سلامتی کے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ گزشتہ صدی میں جب ناوابستہ ممالک کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو نامیڈیا (NAMEDIA) اس کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اطلاعات اور ترسیل کی عالمی سطح پر تنظیم نو کی مانگ، اس جدوجہد کا حصہ تھی جو غیر ترقی یافتہ نو آزاد ممالک، ترقی یافتہ ممالک کی بالا دستی کے خلاف کر رہے تھے۔ مزید برآں یہ خوف کہ کمپیوٹر اور ترسیلی قوت سے مسلح، کثیر قومی کمپنیاں، دوسروں کو معاشی، سیاسی اور ثقافتی طور پر دبوچ لیں گی محض ان غیر ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں تھا جنہوں نے نئے عالمی اطلاعاتی اور ترسیلی تنظیم (NWICO) کے لیے تحریک چلائی تھی۔ بلکہ اس زمانہ میں مغرب کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بھی اس خوف میں مبتلا تھے کہ زیادہ بڑی مچھلی، نسبتاً چھوٹی مچھلی کو کھا جائے گی۔ کینیڈا بہت دنوں تک اطلاعاتی ٹکنالوجی کے پیش رفت سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات کا شاکی رہا تھا۔ فرانس نے ثقافتی سامراجیت کی شکایت کی تھی۔ سویڈن نے بار بار اس قسم کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس طرح NWICO کو عالمی حمایت حاصل ہو سکی تھی۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 1976میں نیروبی میں ہونے والی یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یونیسکو کو ہدایت دی گئی کہ وہ ترسیل کے مطالعہ کے لیے ایک کمیشن مقرر کرے۔ نتیجہ میں ایک سولہ رکنی کمیشن کو یہ کام سونپا گیا جس کے سربراہ آئرش وکیل، صحافی، سیاست داں، نوبل انعام یافتہ اور لینن انعام یافتہ سین میک برانڈ تھے۔ اس کمیشن نے 1979میں اپنی رپورٹ تیار کی جو اس قرارداد کی بنیاد بنی جسے 1980 میں بلغراد میں ہونے والے یونیسکو کے اکیسویں جنرل کانفرنس میں منظور کیا گیا اور جو نئے اطلاعاتی نظام کی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا یک قطبی ہو گئی۔ اب خود اقوام متحدہ کا وجود خطرہ میں ہے۔ ناوابستہ ممالک کی تحریک بدلے ہوئے حالات میں اپنے استعمار مخالف کردار کو متعین کرنے میں ناکام ہے۔ NWICO پر گفتگو تقریباً ختم ہو چکی ہے اور تیسری دنیا کے ممالک کے لوگ معاشی اور تہذیبی یلغار کے سامنے اب بے بس نظر آرہے ہیں۔ قیاس لگایا جا رہا ہے کہ دنیا میں جو پانچ ہزار زبانیں اس وقت موجود ہیں ان میں سے پچاس فیصد، اس صدی کے اختتام تک گم ہو جائیں گی۔ زبانیں، انسانی تجربات کا گنجینہ ہیں —جب کوئی زبان معدوم ہوتی ہے تو اس کے ساتھ، انسانی تجربات کا ایک بڑا ورثہ بھی دفن ہو جاتا ہے۔ Andrews Dalby نے اپنی معروف کتاب Language in Danger (2002) میں اس کا بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ لیکن اس کتاب میں اور ایسی دیگر مباحث میں زیادہ تر مغربی ممالک کا مطالعہ کیا گیا ہے ؛جبکہ ایشیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا کی صورتحال بھی ایک تفصیلی مطالعہ کی متقاضی ہے ع "صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے" ماحولیات کے مشہور رسالہ Down to Earth نے 15فروری 2008 کے شمارے میں رپورٹ کیا تھا کہ نیپال میں ڈورا (Dura) نام کی ایک ایسی زبان بھی ہے جس کی بولنے والی صرف ایک 82سالہ سومادیوی بچی ہے۔ ڈورا، تبتی برمی خاندان کی زبان ہے اور سومادیوی کے مرنے کے بعد یہ زبان معدوم ہو جائے گی۔ اس لیے ایک نیپالی ماہر لسانیات کیدار ناگی لم (Kedar nagilum) نے اس زبان کے ڈیڑھ ہزار الفاظ اور دو سو پچاس جملوں کو محفوظ کر لیا ہے۔ ہندوستانی زبانوں کا مرکز اگر فنا پذیر ہندوستانی زبانوں کے لیے ایسا کوئی کام کرے تو کیا خوب ہو۔ Down to Earth نے اپنے اسی شمارے میں اطلاع دی تھی کہ کوسودا (Kusuda) یا کسنڈا (Kusunda) نامی زبان جسے گم شدہ سمجھ لیا گیا تھا، اس کے جاننے والے تین افراد اب بھی موجود ہیں۔ مغربی نیپال میں ایک ماں بیٹی اس زبان میں گفتگو کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور ضلع میں ایک 77سالہ عورت کا پتہ چلا ہے جو اس زبان کو جانتی ہے مگر 1940کے بعد اس کو اس کے استعمال کا موقع نہیں ملا۔ جب اسے، اس کا موقع فراہم کیا گیا تو اس نے اپنی گفتگو کی روانی سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ ان دو چھوٹی چھوٹی خبروں کی تفصیل خاصی ہولناک ہے۔ کسنڈا اپنی انوکھی خصوصیات کی وجہ سے ان زبانوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں ماہر لسانیات یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ان کو زبانوں کے کس گروہ (Phylum) یا خاندان (Family) میں شامل کیا جائے۔ ان کو وہ Language Isolates کا نام دیتے ہیں۔ جانوروں میں بھی ایک ایسی قسم ہے جس کو Connecting Linksیا Missing Links کہا جاتا ہے۔ وہ اگر ختم ہو جائیں تو ارتقاء کی تاریخ نامکمل رہ جائے گی۔ لہٰذا ایسی زبانوں کا ناپید ہونا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ کسنڈا، نیپال کے قدیمی باشندے ہیں۔ ان کی بچی کھچی آبادی نے بیسویں صدی کے وسط میں اپنے لیے سنہا، سین، ساہی اور خان جیسے چار ہند۔ آریائی لقب اختیار کر لیے اور پھر دوسری زبان کے بولنے والوں میں مدغم ہوتے چلے گئے۔ 1960اور 1970 کی دہائی تک ان کے بولنے والے نظر آتے تھے مگر اب Down to Earth کی اطلاع کے مطابق کل تین افراد اس زبان کو جانتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی ایسی زبانیں جن کو Language Isolates کہا جاتا ہے ان میں نہالی (Nahali) بھی ہے جس کے بولنے والے، مدھیہ پردیش میں، تاپتی ندی کے جنوب میں گوالی گڑھ کی پہاڑیوں کے گرد بسے ہوئے ہیں۔ اب ان کے بولنے والوں کی تعداد دو ہزار بھی نہیں رہ گئی ہے۔ اسی قسم کی ایک اور زبان بورشکی (Burushki) ہے جس کے بولنے والے لوگ ہنزا اور نگر میں پچاس ہزار کی تعداد میں اور یٰسین میں اسی ہزار کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی اچھی خاصی تعداد گلگٹ میں بھی آباد ہے۔ لیکن یہ زبان چاروں طرف سے ایرانی اور ہند آریائی زبانوں سے گھری ہوئی ہے اور باہری دنیا کا دباؤ اس پر بڑھتا جا رہا ہے۔ 1891 میں برطانیہ کے زیر نگیں آنے سے قبل یہ خطہ لگ بھگ خود مختار تھا۔ 1972میں بھٹو نے اس رجواڑے کی خود مختاری ختم کی اور 1974 میں رجواڑے کا ہی خاتمہ ہو گیا۔ 1968 میں بننے والی قراقرم شاہراہ کی وجہ سے باہری دنیا کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور اب چند دہائیوں میں اس زبان کے معدوم ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ انڈومان جزائر میں، ایسی ہی انوکھی، تین درجن سے زائد زبانیں کھو چکی ہیں اور جو بچی ہیں ان میں سے جاروا (Jarwa) اور اونگ (Onge) کے بولنے والوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے کوئی صاحب ایک پروجکٹ بنا کر وہاں کام کر رہے ہیں۔ مگر یہ کام ایک پروجکٹ سے کہیں بڑا ہے۔ 1 یہ آفت صرف ان زبانوں پر نہیں آئی ہے جن کو Language Isolates کہا جاتا ہے۔ George Van Driem نے جنوبی ایشیا کی فنا پذیر زبانوں کی جو تفصیل پیش کی ہے وہ خاصی ہولناک ہے۔ Down to Earth نے جس ڈورا زبان کے بارے میں اطلاع دی کہ اب اس کی بولنے والی صرف 82سالہ سو مادیوی بچی ہے، وہ زبان 1970 کی دہائی تک پوڑ ی (Paudi) اور می ڈِم (Midim) دریایوں کے درمیانی خطہ میں لم جن (Lumjun) میں بولی جاتی تھی۔ ڈورا جس تبتی۔ برمی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اس خاندان کی اور بہت سی زبانیں فنا پذیر ہیں۔ مثلاً: اسی خاندان کی پیو (Pyu) جو موجودہ میان مار کے علاقہ میں بولی جاتی تھی اب تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ اسی خاندان کی ایک اور زبان رنگکاس (Rangkas) کے بولنے والے بیسویں صدی کی ابتداء تک موجود تھے مگر اب ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اسی تبتی-برمی خاندان کی نیواریک زبانیں (Newarik Languages) جن میں تحریرکی روایت بارہویں - تیرہویں صدی میں موجود تھی، اپنے وطن کا ٹھمنڈو کی وادی میں معدوم ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ نیپالی لے رہی ہے جو اس وادی کی بولی نہیں ہے۔ نیپال میں سو سے زائد زبانیں ہیں۔ مگر ان میں متعدد ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ نہیں ہے۔ ان میں رائے (Rai) زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد 1991 میں پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 2001 کی ہندوستان مردم شماری میں ان کی تعداد 14ہزار بتائی گئی ہے۔ پھر لمبو (Limbu) گروپ کی زبانیں ہیں جن کے بولنے والے تقریباً تین لاکھ لوگ مشرقی نیپال سے سکم تک پھیلے ہوئے ہیں۔ 2001 میں اس کے بولنے والے 37,265 لوگ ہندوستان میں تھے۔ اس گروپ کی زبان Phedappe موجودہ نسل کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن اس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر باقاعدہ کوشش نہیں کی گئی تو شاید اکیسویں صدی کے آخر تک پورے لمبو گروپ کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ خود ہند آریائی خاندان کی تین زبانیں دنوور (Danuwar) ، درائی (Darai) اور ماجھی (Majhi) معدوم ہونے والی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے بولنے والے نیپالی زبان کی طرف راغب ہو گئے ہیں۔ نیپال، اس کی ترائی اور منی پور میں بولی جانے والی متعدد ہند آریائی زبانیں تقریباً غائب ہو چکی ہیں ؛ ان میں کمہاروں کی بولی کہالی بھی ہے اور گنگائم بھی جو مشرقی بہار اور مشرقی نیپال میں مروّج تھی۔ اسٹروایشیاٹک خاندان، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کا قدیم ترین لسانی خاندان ہے۔ اس خاندان کی چار زبانوں —یعنی Khmer، ویت نامی، کھاسی اور سنتھالی کو چھوڑ کر بقیہ دو سو سے زائد زبانیں خاتمہ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ حتیّٰ کہ مون (Mon) زبان، جس میں تحریر کی روایت، ساتویں صدی میں موجود تھی، اس خطرہ کا شکار ہے۔ نکوبار جزائر میں اسی گروہ خاندان زبانیں پو (Pu) ، Powahat, Taihlong, Tatet, Ong, Lo'ong, Tehnu, Laful, Nancowryوغیرہ کے بولنے والوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وہاں ایک انوکھی زبان Shompenبھی ہے جس کے بولنے والے 1981میں 223افراد تھے۔ اسی لسانی گروہ کی تقریباً18 زبانیں — جن کے بولنے والے کئی لاکھ افراد جھارکھنڈ، مدھیہ پردیس، اڑیسہ، بہار، آسام اور مغربی بنگال میں پائے جاتے ہیں —ہر طرف سے ہند۔ آریائی زبانوں کا دباؤ جھیل رہی ہیں۔ ان میں سنتھالی کو چھوڑ کر بقیہ سب زوال پذیر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سنتھالی میں مزاحمت کی بڑی صلاحیت ہے بلکہ اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو گئی ہے۔ مگر بقیہ منڈا زبانوں کا کیا حشر ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ لسانی ڈرامہ صرف شمال تک محدود ہے اور جنوبی ہندوستان میں گویا سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ وہاں کنٹر، تامل، تلگو اور ملیالی کے علاوہ جو پچیس زبانیں مروج ہیں، ان کے سر پر بھی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان میں Tulu جیسی خالص جنوبی دڑاوڑی زبان ہے جس کے بولنے والے دس لاکھ سے زائد لوگ منگلور اور کسرکوڈ میں پائے جاتے ہیں اور جس کا رسم خط "گرنتھ"، ملیالی جیسا ہے۔ اس میں 1842 سے نصابی کتابیں اور انجیل کے ترجمے چھپتے رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور زبان Kuvi ہے، جس کے بولنے والے پانچ لاکھ سے زائد لوگ اڑیسہ کے کالا ہانڈی سے آندھرا کے وشاکھا پٹم تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عیسائی مبلغوں نے رومن اور اڑیہ دونوں رسم خط میں اس کی طباعت کی ہے۔ ان میں ایک دلچسپ دڑاوڑی زبان Brahui ہے جس کے پانچ لاکھ بولنے والے پاکستان کے حیدرآباد، کراچی اور خیرپور سے ہوتے ہوئے پاس کے افغانی اور ایرانی علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس میں تحریر کی روایت تین صدی پرانی ہے ؛ گرچہ اس کا ادبی سرمایہ زیادہ وقیع نہیں ہے۔ اس دڑاوڑی زبان کو فارسی کے ایک ترمیم شدہ رسم خط میں لکھا جاتا ہے —لسانیات کا جال، ساری حد بندیوں کو توڑ کر دلچسپ حقائق سے روبروکراتا ہے۔ مگرGeorge Van Driem کے سروے یا اس قبیل کی دیگر تحریروں میں بھی جنوبی ایشیا کی لسانی بو قلمونی کی مکمل تصویر نہیں ابھرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہندی پٹی کی متعدد بولیوں کو قانونی طور پر ہندی کی بولیاں گردانا گیا ہے۔ اس لیے سروے میں بھوجپوری، مگہی، اودھی، برج وغیرہ کا الگ الگ ذکر مشکل سے ہوتا ہے۔ بہار کے 12اور مشرقی اترپردیس کے 16اضلاع پر مشتمل بھوجپور ی بولنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی زبان بین الاقوامی حیثیت کی مالک ہے۔ دلیل یہ ہے کہ مارلیشس کی ستر فیصد آبادی در اصل بھوجپوری بولتی ہے۔ اسی طرح سوری نام، فجی اور بہت سے ممالک میں بھوجپوری بولنے والے آباد ہیں۔ بھوجپوری کا ادب بھی موجود ہے اور اس میں فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ اب ایک ٹیلی ویژن چینل بھی کام کر رہا ہے۔ بھوجپوری میں ناول لکھنے والوں میں راہل سانکرتیاین جیسے قد اور لوگوں کا نام آتا ہے۔ بھوجپوری بولنے والوں کی نہ صرف تعداد بڑی ہے بلکہ اس میں مزاحمت کی بھی زبردست صلاحیت ہے۔ لیکن یہی بات مگہی، اودھی یا برج کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ان کا دائرہ دن بدن سمٹ رہا ہے۔ یہی حال ماڑواڑی، ہریانوی اور شمالی بہار کی زبان وجّیکاکا ہے۔ خود راجستھانی دباؤ کا شکار ہے۔ اس لیے مغربی ماہر لسانیات جو سروے پیش کر رہے ہیں مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں 14 ستمبر 1949 کو ناگری رسم خط میں ہندی کو یونین کی زبان تسلیم کیا گیا اور اسے رابطہ کی زبان کی حیثیت سے ترقی دینے کی بات طے ہوئی تو اس کے پس پشت یہ تصور کار فرما تھا کہ یہ ہندوستان اور ملک کی دیگر زبانوں سے بڑے پیمانے پر جذب وقبول کا سلسلہ شروع کرے گی اور ان زبانوں کے تہذیبی عناصر کو سمیٹ کر ایک ایسے بڑے تہذیبی دھارے کی شکل اختیار کرے گی جس میں ہرلسانی خطے کے لوگ اپنا عکس دیکھیں گے۔ چنانچہ دستور کے دفعہ 351 میں مندرج ہے: "دفعہ 351: ہندی زبان کو فروغ دینے کے لیے ہدایت "یونین کا یہ فرض ہو گا کہ ہندی زبان کی اشاعت کو فروغ دے تاکہ وہ بھارت کی ملی جلی تہذیب کے تمام عناصر کے لیے اظہار خیال کے ذریعہ کے طور پر کام آئے اور، اس کے مزاج میں دخل انداز ہوئے بغیر، ہندوستانی اور آٹھویں فہرست بند میں مندرجہ، بھارت کی دوسری زبانوں میں استعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو جذب کر کے اور، جہاں بھی ضروری ہو یا مناسب ہو، اس کے ذخیرۂ الفاظ کے لیے اولاً سنسکرت اور ثانیاً دوسری زبانوں سے اخذ کر کے اس کو مالا مال کرے۔" اس دفعہ کی منظور ی غیر متنازعہ نہیں تھی۔ 12 ستمبر 1949 کی سہ پہر میں این گوپالا سوامی آئنگر نے جو ترمیم پیش کی تھی اور جسے بالآخر 14ستمبر1949 کی شام تک منظور کر لیا گیا، اس کی بنیاد، ڈرافٹنگ کمیٹی میں اکثریت کی رائے پر تھی۔ ان تین دنوں میں جو بحث ہوئی وہ کوئی خوش گوار بحث نہیں تھی اور اب اسے انیسویں صدی کے لسانی تنازعہ کی طرح، محض ماضی سے سبق حاصل کرنے کے لیے پڑھاجاسکتا ہے۔ جواہر لال نہرونے 13 ستمبر 1949 کو اپنی تقریر میں اس پر بہت جامع تبصرہ کیا تھا۔ اپنی اس تقریر میں، این گوپالا سوامی آئنگر کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: "مجھے نہیں معلوم اس زبان کا مستقبل کیا ہو گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہندی کے معاملہ میں دانشمندی سے کام لیں گے۔ اسے اخراجی (Exclusive) کے بجائے جاذب (Inclusive) زبان بنا کر، اور اس میں ہندوستان کی زبان کے تمام عناصر کو سموکر جو اردو یا ملی جلی ہندوستانی کی شکل میں جلوہ گر ہوئی ہے —قانون کے ذریعہ نہیں، یاد رکھیے، اگر میں پھر یہ کہوں کہ اُس طرح نہیں کہ اسے جو لوگ ناپسند کرتے ہیں، ان پر ٹھونس کر—تو مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ ترقی کرے گی اور ایک عظیم زبان بن جائے گی۔" یہ وہ پس منظر تھا جس میں گوپالاسوامی آئنگرکی ترمیم 301I منظور ہوئی تھی، جو 981 ناگری کی شمولیت کے ساتھ، دفعہ 351 کی شکل میں دستور ہند میں شامل ہے۔ اس نے یونین کی زبان ہندی کی ترقی کے خطوط متعین کر دیے کہ یہ زبان ہندوستانی اور دیگر زبانوں کے ملے جلے تہذیبی عناصر کو سمیٹ لے گی اور اپنی لفظیات کے لیے، بنیادی طور پر سنسکرت مگر ثانوی طور پر دیگر ہندوستانی زبانوں کے ساتھ اخذ و قبول کا سلسلہ شروع کرے گی۔ سنسکرت کی بات یوں ضروری تھی کہ ہر ترقی پذیر زبان، اپنے الفاظ و اصطلاحات کے لیے اپنے قریب ترین کلاسیکی زبان پر انحصار کرتی ہے۔ مگر ہندوستانی اور دیگر قومی زبانوں سے اخذ و قبول کی بات بڑی دانشمندی سے کہی گئی تھی۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ ان الفاظ و اصطلاحات کو بھی خارج کر دیا گیا جو سرکاری کام کاج اور عدالت میں عام استعمال میں تھے۔ یعنی ہندی کو ایک بڑے تہذیبی دھارے میں بدلنے کے بجائے ایک چھوٹی ندی کی شکل میں ترقی دی گئی۔ تعصب کے اس کھیل نے ہندی کو ایک بڑے ورثہ سے محروم کر دیا۔ چنانچہ انگریزی کی یلغار اسے اس مقام پر لے آئی ہے جہاں ہندی زبان کا ایک پروفیسر اور ایک مرکزی یونیورسٹی کا صدر شعبہ، ہنگلس کی حمایت برسر عام کر رہا ہے اور اس پر کسی کو غصہ نہیں آ رہا ہے۔ گویا ہندی جیسی اہم زبان جس کے پس پشت، اس کی ماں جائی اردو کی عظیم الشان روایت موجود ہے، اس کی حیثیت ایک بیل کی سی ہو گئی ہے جو انگریزی کے تناور درخت کے بنا پھل پھول نہیں سکتی۔ عالم کاری کے اس دور میں، انگریزی زبان اور مغربی تہذیب کے مقابلہ میں ہندی کی پسپائی، اس کی داخلی توانائی کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہندی کے جوشیلے ہمنوا اور بعض سیاسی پارٹیوں کے کارکنان، اترپردیس میں انگریزی کے سائن بورڈ پر سیاہی پوت رہے تھے۔ آج ان کی جانشین پارٹیوں کے ایجنڈے سے ہندی خارج ہو چکی ہے ؛اس لیے کہ اب ان کی تیسری نسل، ہندی زبان اور اس کی روایات میں رچی بسی نہیں ہے، بلکہ خالص مغرب زدہ ہے۔ دیگرہندوستانی زبانوں کی طرح، ہندی میڈیم میں پڑھنے والے وہ لوگ بچے ہیں جو انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہندی کے بعض کم ہمت اُدبا اور دانشور، مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے اور اس کا تدارک کرنے کے بجائے مارکیٹ اکانومی اور ہنگلش کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اس لیے ہمیں اس پورے عمل کے طبقاتی کرد ار پر غور کرنا چاہیئے —لینن نے 1914میں ایک مضمون لکھا تھا جس کے انگریزی ترجمہ کا عنوان ہے Is a Compulsory Official Language Really needed۔ پھر1928-30سے انحراف کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے سویت یونین کے بکھراؤ میں اپنا کردار ادا کیا اور اسی انحراف کے نتیجہ میں چین کے سنکیانگ میں ایسی بیچینی ہے کہ "دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔" کیا اچھا ہو کہ ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں ان تمام امور پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو۔ جب غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو گا اور ہندی، اردو اور بولیوں کی ترکیب سے ہندوستانی کا خمیر تیار کریں گے تو یہ طے کرنا ہو گا کہ اس کا خمیر تدبھو مائل ہو گا یا تدسم کی طرف۔ اردو اپنے مزاج کے اعتبار سے تدبھو کی طرف مائل ہے۔ اٹھارہویں صدی میں خان آرزو اور شیخ علی حزیں کے درمیان معارضہ کی بنیاد یہی تھا۔ خان آرزو کا استدلا ل یہ تھا کہ ایران کی فارسی میں کسی لفظ کا تلفظ خواہ کچھ بھی ہو اور آپ اس سے کوئی بھی معنی مراد لیتے ہوں اردو میں وہی درست ہے جس طرح سے ہندوستان میں اسے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اردو کا مزاج آج بھی وہی ہے۔ اصل لفظ سوریہ ہو گا مگر اردو میں سورج اور سورج گرہن اور سورج درشن ہی درست ہے۔ پانی اردو میں پانی رہے گا خواہ اس کا اصل تلفظ کچھ بھی رہا ہو۔ یہ اور ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کے بارے میں طے کرنا ضروری ہے کہ ہندوستانی کا لسانی مزاج کیا ہونا چاہئے —وہ جو عوام بولتے ہیں یا کچھ اور۔ سوالات تو بہت ہیں۔ مسائل و مشکلات بھی بے شمار۔ مگر جذب و قبول اور اخذ واستفادہ کی ایک روایت بھی موجود ہے۔ جو دھپور یونیورسٹی میں پروفیسر نامور سنگھ کے ساتھ جو ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں، مگر این سی ای آر ٹی کی ہندی کتابوں پر وہ کافی حد تک اثر انداز ہوئے۔ ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں ہندی اور اردو دونوں کو لازمی طور پر پڑھانے کی جوروایت ان کی کوششوں سے شروع ہوئی وہ گزشتہ 36سال میں خاصی مستحکم ہو چکی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہندوستان کی کسی اور یونیورسٹی نے اس کی تقلید کی ہے مگر ان کے شاگرد چمن لال نے روزنامہ ٹری بیون کے ذریعہ پنجابی کو فارسی اور گورمکھی دونوں رسم خط میں پڑھانے کی حمایت کی اور راقم نے اس پر تفصیل سے مضمون لکھا۔ اس مرکز سے نکلنے والے بیشتر طالب علم اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور شاید یہی مناسب راہِ عمل ہے۔ ہم اگر انصاف کے طالب ہیں تو اپنے مزاج میں بھی منصفی پیدا کرنا لازم ہے۔ اور جب مزاج میں منصفی پیدا ہو گی اور چھوٹی سے چھوٹی زبان اور بولی کو پھولنے پھلنے کا موقع ملے گا، تو پھر ہندی، اردو اور دیگر ہندوستانی زبانوں اور بولیوں کا مشترکہ محاذ تیار ہو گا جس کی کمان میں تہذیبی یلغار کا مقابلہ کیا جاسکے گا۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت بازی (Majoritism) نہیں ہے۔ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی اقلیت کے حقوق کی حفاظت کی جائے ؛ خواہ وہ مذہبی اقلیت ہ یا لسانی اقلیت۔ (ہندوستانی زبانوں کا مرکز کے یومِ تاسیس کے موقع پر 28اکتوبر2009 کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں دیا گیا کلیدی خطبہ۔ اس جلسہ میں ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چیرمین پروفیسر چمن لال نے اپنی تقریر میں کہا کہ دسویں جماعت تک ناگری اور اردو دونوں رسم خط کو لازمی طور پر پڑھایا جائے تو یہ مسئلہ اپنے آپ ہی حل ہو جائے گا۔) اردو کے فروغ میں نشریاتی ادب کا حصہ شکیل اختر ہندوستان میں باقاعدہ نشریاتی کا آغاز پہلی جنوری 1936 کو ہوا۔ اس سے قبل ہندوستان میں نشریات کا سلسلہ بکھرا ہوا تھا۔ ہندوستان میں نشریات کے آغاز سے ہی نشریاتی ادب کے ہلکے ہلکے نقوش ابھرنے لگے تھے اور مختصر مدت ہی میں اس نے ادب کے وسعت اور امکانات میں بے حد اضافہ کیا اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ریڈیو میں ابتدائی سے اردو زبان کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے اور تمام اہم مراکز سے اسی زبان میں پروگرام نشر کئے جاتے تھے۔ دوسرح طرف ہندوستان میں نشریات کے آغاز ہی میں پطرس بخاری اور ذوالفقار بخاری جیسے اردو داں حضرات نے جہاں ریڈیو نشریات کو مستحکم کیا وہیں ان دونوں بھائیوں نے غیر دانستہ طور پر نشریاتی ادب کی روایت کا آغاز بھی کیا اور چن چن کر اردو داں حضرات کو اس نئے میڈیم سے روشناس کروایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اردو میں نشریاتی ادب کی داغ بیل پڑنے لگی اور گذشتہ صدی کے اختتام تک اس میں ادب کا ایک وسیع ذخیرہ ہو گیا جس نے عمومی طور پر اردو ادب کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آگے ایک نظر ڈالتے ہیں نشری اور غیر نشری ادب کے فرق پر۔ غیر نشری ادب صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ نشری ادب کی رسائی عام لوگوں تک ہوتی ہے۔ غیر نشری ادب کا پڑھنے والا ایک مخصوص طبقہ ہوتا ہے۔ اس ادب کے تخلیق کار کسی بھی شہ پارے کو لکھتے وقت قاری کی فکر، تہذیبی اور معاشرتی سطح کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جوں ہی کوئی خیال ذہن میں آیا اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا جاتا ہے اس کے برعکس ریڈیو کا ایک معمولی پروگرام بھی نشر ہونے سے قبل کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور اس کی تیاری برسہا برس پہلے سے ہوتی ہے۔ نشری شہ پارے کو براڈ کاسٹ کرنے سے قبل اس بات کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ سننے والوں کا تعلق معاشرے کی کس سطح سے ہے۔ ان کی نفسیات اور دلچسپی کیا ہے۔ نشریاتی ادب میں زبان و بیان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جبکہ غیر نشریاتی ادب میں بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال کی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ نشریاتی ادب دراصل دریا میں کوزے کو بند کر نے کا نام ہے کیوں کہ یہاں وقت کی پابندی از حد ضروری ہے۔ اس ادب سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار کو اگر اپنے موضوع پر پورا عبور حاصل نہ ہو تو تقریر لکھنی مشکل ہو جاتی ہے۔ نشریاتی ادب کا مفہوم نشریاتی ادب کسی بھی نشری ادارے کے ذریعہ پیش کئے جانے والے وہ پروگرام ہیں جنہیں نشریاتی اصولوں، تقاضوں اور بنیادی ادبی خصوصیات کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ادب سے متعلق وہ پروگرام جو ریڈیو کے ذریعہ نشر کیا جاتا ہے وہ نشر یاتی ادب کہلاتا ہے۔ دنیا کے تمام نشری ادارے اپنی مخصوص پالیسی کے تحت پروگرام نشر کر تے ہیں جس کا اطلاق ادبی پروگراموں پر بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں چونکہ جمہوری طرز کے ابتدا سے ہی ادبی پروگراموں کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور تقریباً تمام اہم مراکز سے اردو کے ادبی پروگرام آج بھی نشر کئے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابتدائی دور سے ہی رواں دواں ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نشریاتی ادب کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ ہو گیا۔ نشریاتی ادب عمومی طور پر وہ ادب ہے جس کی ترسیل معاشرے لی نچلی سطح تک ہوتی ہے۔ غیر نشریاتی ادب نے جس کام کو ایک طویل مدت میں نہیں کیا اسے نشریاتی ادب نے قلیل مدت میں کر دکھایا۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور و معروف شاعر غالب کو ہی لے لیجئے، غیر نشریاتی ادب میں ان پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کے اشعار کی تفہیم میں بھی خوب خوب گل بوٹے کھلائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود غیر نشری ادب غالب کو عوام کی سطح پر متعارف نہیں کر اسکی جب کہ نشریاتی ادب نے بہت مختصر مدت میں غالب کو نہ صرف معاشرے کے عمومی حلقے سے متعارف کرایا بلکہ وہ لوگ بھی اس کے دیوانے بن گئے جن کو اردو نہیں آتی ہے لیکن غالب سے متعلق کچھ حد تک جانکاری ضرور رکھتے ہیں۔ ایک اور بات کا یہاں ذکر کرتا چلوں کہ ریڈیو سے قبل موسیقی درباروں تک محدود تھی اور ایک وقت ایسا آیا جب جاگیر داری ختم ہو گئی تو موسیقاروں کی سر پرستی بھی ختم ہو گئی لیکن ریڈیو نے اس فن کو بھی جلا بخشی اور اسے درباروں سے نکال کر گلی کوچوں میں پہنچا دیا اور عام لوگوں میں موسیقی کا ذوق بھی پیدا کیا۔ نشریاتی ادب نے اس موسیقی کے ذریعہ بھی مختلف شاعروں کو عوام سے متعارف کرایا ہے۔ اردو میں نشریاتی ادب کی تاریخ کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اردو کا ہر معروف ادیب یا تو ریڈیو کے اسٹاف میں رہا ہے یا ریڈیو سے باہر رہ کر اس کے لئے لکھا ہے ایسے شعرا و ادبا کی ایک طویل فہرست ہے جن کا ذکر آگے آئے گا تاہم نشریاتی ادب کی پوری تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ول ابتدا سے 1947 ء تک۔ دوئم 1947 ء سے تا حال اول دور میں ہندوستان کا نشریاتی ادب اور خصوصاً اردو کا نشریاتی ادب تجربے کے دور سے گذر رہا تھا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے ریڈیو کے لئے لکھا ان کے سامنے نشریاتی ادب کی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔ دوسری طرف انگریزی ادب کا دامن بھی ان موتیوں سے خالی تھا۔ ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز ہی سے نشریاتی ادب کے نقوش کا پتہ چلتا ہے لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آج تک نشریاتی ادب کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اردو میں نشریاتی ادب کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس کا آغاز 1930 ء کی دہائی میں ریڈیو نشریات کے ساتھ ہوا۔ (اب تک) اردو میں ریڈیائی تقریروں کا جو مجموعہ کتابی ں صورت میں منظر عام پر آ چکا ہے اس کے مطابق 3 اکتوبر 1929ء کو اردو میں پہلی بات چیت ملّا واحدی کی نشر کی گئی تھا جس کا موضوع تھا مصور غم مولانا راشد الخیری کی یہ تقریر "کیا خوب آدمی تھا" سلسلہ تقاریر کے تحت نشر کی گئی تھی۔ اس سے قبل ریڈیو میں تقریریں تو نشر ہوئی ہیں لیکن اب اس کا مسودہ کہیں محفوظ نہیں ہے اور نہ اس کے حوالے ملتے ہیں۔ طباعت کی صورت میں مذکورہ کتاب اردو کی پہلی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ہے۔ ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز میں عام طور پر اردوداں طبقے نے اس نئے میڈیم کی جانب لبیک نہیں کہا مگر بالخصوص ایک طبقے نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اسے اظہار کے ایک وسیلے کے طور پر قبول کیا۔ سید ذوالفقار علی بخاری اپنی خود نو شت میں لکھتے ہیں: "آغا اشرف کو ساتھ لے کر ہر ایک کے در دولت پر حاضری دی اور بصد التماس ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند کیا۔ ڈاکٹر انصاری، خواجہ حسن نظامی، بھائی آصف علی، مرز ا محمد سعید، نواب خواجہ عبدالمجید، ڈاکٹر ذاکر حسین، بیگم سر بلند جنگ، آغا شاعر قزلباس، شمس العلما مولوی عبدالرحمن، منشی پریم چند، مرزا فرحت اللہ بیگ، پرنسپل رشید احمد صدیقی کس کس کا نام گناؤں۔ یہ تھے ہمارے مستقبل طور پر تقریر نشر کرنے والے حضرات، لاہور میں ابھی ریڈیو جاری نہیں ہوا تھا مگر سالک اور امتیاز کے بغیر محفل سونی ہو جاتی تھی چنانچہ انتظام یہ کیا گیا کہ یہ حضرات لاہور سے ٹیلی فون پر بولیس اور دہلی سے ہم ان کی تقریر ریلے کریں گے۔ سالک صاحب افکار و حوادث اور امتیاز چچا چھکن لے کر اس بزم میں شریک ہوتے۔" -- (سرگدشت سید ذوالفقار علی بخاری صفحہ 54 ایڈیشن 1995) اسے خوش بختی ہی کہا جائے گا کہ ہندوستان میں نشریات کے اولین دور میں پطرس بخاری جیسا ادیب اور ذوالفقار بخاری جیسے صاحب نظر عہدیدار ملا ان دونوں بھائیوں نے ہندوستان میں نشریات کا ایک جامع نٹ ورک تیار کیا۔ کمال احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بخاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بخاری نے ہی اس وقت کے نامور ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو نشریات سے روشناس کرایا اور لکھنے پڑھنے والوں کو مروجہ لکھنے کی زبان کے بجائے بولنے کی زبان اہمیت سے آگاہ کیا اور اسی زبان میں نشریات کے مسودے مرتب کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نشریات کی ایجاد زبان کو از سر نو تازگی اور حرارت دے کر اسے اپنے اصل مرتبہ پر فائز کرے گی"۔ آزادی سے قبل آل انڈیا ریڈیو سے پروگرام عموماً اردو میں ہوا کر تے تھے جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ رفعت سروش نے اپنے مضمون میں ریڈیو سے وابستہ لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام یہ ہیں۔ "پطرس بخاری، ن۔ م۔ راشد، میراجی، مختار صدیقی، اسرارالحق مجاز، راجہ مہدی علی خاں، تابش دہلوی، انصارناصری، فضل حق قریشی، راز مرادآبادی، شوکت تھانوی، سلام مچھلی شہری، کرتار سنگھ دگل، عشرت رحمانی، وشو امتر عادل، شہزاد لکھنوی اختر الایمان، ممتاز مفتی، اشفاق حسین، حفیظ ہو شیار پوری، ضیاء جالندھری، اعجاز بٹالوی، ڈاکٹر مسعود حسین خاں، لالہ مہیشور دیال، حبیب تنور فارغ بخاری اور رفعت سروش۔" بحوالہ (آل انڈیا ریڈیو کی اردو خدمات از رفعت سروش سہ ماہی قصے، جنوری تا جون، صفحہ 122، سال 2001) اب ان لوگوں کا ذکر سنئے جنہوں نے ریڈیو کے لئے تقریریں لکھیں اور اسے کتابی صورت میں چھپوا کر محفوظ بھی لیا۔ ایسے لوگوں میں سرفہرست نام مصور فظرت خواجہ حسن نظامی کو ریڈیو کے لئے استعمال کی جانے والی زبان کا اچھا خاصا شعور تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں ٹاک پڑھنے کا بھی فن خوب آتا تھا۔ خواجہ حسن نظامی سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کمال احمد صدیقی لکھتے ہیں: "خواجہ حسن نظامی، ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے آغاز سے پروگراموں میں شرکت کی بلکہ جن کے اسلوب نے ریڈیو کے لئے دوسرے تو خیز لکھنے والوں کو بھی راستہ دکھایا۔" خنداں: سال اشاعت 1940 صفحات 381 یہ رشید احمد صدیقی کی ان مختصر تقریروں کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئیں ان کی تعداد چالیس ہیں۔ خنداں نشریاتی ادب کی ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کے تمام مضامین نشریاتی تقاضوں کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ اس کے مضامین میں کہیں گہرے طنز کا احساس ہوتا ہے تو کہیں کہیں رشید احمد صدیقی کا طنز یہ اسلوب سطحی ہو گیا ہے۔ ادب کیا ہے؟ یہ نورالحسن ہاشمی کی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ہے جس میں 16 نشری مضامین ہیں۔ یہ تمام تقاریری آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ سے نشر ہو چکی ہیں۔ تمام کے تمام مضامین ادبی موضوعات پرہیں اور نہایت ہی دلچسپ پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں۔ تنقیدی اشارے آل احمد سرور اردو کے ایک مقبول ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کے تنقیدی سرمائے میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کیا ہے۔ آل احمد سرور آل انڈیا ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں دلچسپی سے شرکت کرتے تھے ان کا تعلق بھی آزادی سے قبل ریڈیو کے لئے مختلف نوع کی تقریر لکھنے والوں میں سے تھا۔ انہوں نے بے شمار تنقیدی مضامین احباب ریڈیو کی فرمائش پر لکھے تھے۔ ان کی نشری تخلیقات اکثر و بیشتر رسائل کی زینت بھی بنتی رہی ہے۔ ایسی ہی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ تنقید ی اشارے ہیں۔ اس میں شامل مضامین ریڈیو کے لئے لکھے گئے تھے لیکن دوسرے ایڈیشن میں چند مضامین کا اضافہ کیا گیا۔ ریڈیو نے ابتدائی دور سے ہی ادب کی مختلف اصناف کو اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کر دیا تھا اور اس پر گہرے اثرات بھی مرتب کئے۔ ابتدائی دور میں جب تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مختلف نوع کی ادبی تقریریں نشر کی گئیں جن میں کچھ خاکے بھی تھے مگر اس وقت اسے ایک علیحدہ صنف کے طور پر نشر نہیں کیا گیا مگر یہ خدوخال کے اعتبار سے خاکے کے زمرے میں آتے ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر صابرہ سعید اپنی کتاب میں لکھتی ہیں۔ "1929ء میں آل انڈیا ریڈیو سے چند مضامین نشر کئے گئے جو راشد الخیری، ڈپٹی نذیر احمد، چکبست اور داغ سے متعلق تھے۔ راشد الخیری کا خاکہ ملا واحدی نے لکھا تھا لیکن باقی مضامین خاکوں سے زیادہ سوانحی مضامین کے ذیل میں آتے ہیں بحوالہ "اردو میں خاکہ نگاری" ڈاکٹر صابرہ سعید۔ ہوا کے دوش پر یہ غلام ربانی تاباں کی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے ریڈیو کے لئے بہت سارے مضامین اور خاکے لکھے متذکرہ بلا کتاب میں پانچ ادبی خاکے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی موضوعات پر پانچ تقریریں اور چھ فیچر شامل ہیں۔ یہ تمام تر تخلیقات آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس اور اردو مجلس سے نشر ہوئی ہیں۔ انتخاب مضامین مرزا محمود بیگ یہ کتاب مرزا محمود بیگ کے نشری تقریروں اور فیچروں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے لئے مختلف موضوعات پر تقریریں لکھیں۔ ان تقریروں کا مجموعہ مضامین محمود ہے جس میں خاکے اور ہلکی پھلکی مزاحیہ تقریریں بھی ہیں۔ یہ تقریریں بھی ہمارے نشریاتی ادب کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اس مجموعے میں تیرہ فیچر بھی ہیں جنہیں مرزا محمود بیگ نے بغاوت ہند کی سالگرہ کے موقعہ پر 1957 ء میں لکھا تھا۔ ان فیچروں کا عنوان دلی اور اس کے گلی کوچے ہیں یہ کتاب نشریاتی ادب کی ایک اہم کڑی ہے۔ ریڈیائی تقریروں اور خاکوں کی اس کتاب کے علاوہ بہت سی تقریریں اور خاکے اردو کے مختلف رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں عملی دشواری یہ ہے کہ ان مضامین میں بہت کم ایسے ہیں جنہیں ریڈیو کے حوالے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ادبی فیچر اور تقریریں پروفیسر ڈاکٹر مظفر حنفی کی یہ کتاب نشریاتی ادب کی ایک اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے میں خالص ادبی موضوعات پر 9 فیچر ہیں جبکہ دوسرے حصے میں 17 نشری تقریریں ہیں۔ اس کے علاوہ جگن ناتھ آزاد کی کتاب نشان منزل میں چودہ مقالات اور 9ریڈیائی مضامین شامل ہیں۔ ادب کی پرکھ یہ کتاب ڈاکٹر نریش کے مقالات کا مجموعہ ہے جس میں ریڈیائی مضامین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی خطبات میں بھی ریڈیائی مضامین شامل ہیں۔ پروفیسر محمد مجیب کی کتاب دنیا کی کہانی، خواجہ غلام السیدین کی کتاب داستان اشک و خون قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ چند مشہور زمانہ تقریری سلسلوں کا ذکر بھی کرنا بے جا نہیں ہو گا۔ بھلائے نہ بنے سلسلہ تقاریر کے تحت اردو سروس سے مشرق و مغرب کی شہرہ آفاق تصنیفات کے ان اہم کرداروں پر 120 ایسی تقریریں نشر کی گئیں جو سامعین کے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ گئیں اور اق مصور کے تحت ادب کی اہم تصنیفات پر مبنی سلسلہ تقاریر آسماں کیسے کیسے، اردو ہے جس کا نام رودادقفس (زندانی ادب سے متعلق سلسلہ تقاریر) جدید ادبی رجحانات/ اے عشق اجل گہر /یہ خلد بریں ارمانوں کی /غالب بصد انداز وغیرہ وغیرہ۔ ریڈیو ڈراما ہندوستانی نشریات میں ریڈیو ڈرامے کا تصور روز اول سے ہی رہا ہے ہندوستان میں ریڈیو ڈرامے کی شروعات سے قبل بی بی سی بھی ریڈیو ڈرامے نشر کر چکا تھا۔ اس کی مدت یعنی دو رانیہ کافی لمبا ہوتا تھا ہندوستان میں بھی اسی نہج پر ریڈیو ڈرامے نشر کئے گئے جس کی دو رانیہ دو سے تین گھنٹے تک ہوتا تھا۔ ذوالفقار بخاری اور پطرس بخاری نے اس طرح کے ڈرامے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ڈرامہ صرف آدھ گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک کا ہونا چاہئے۔ اس میں طویل مکالمے اور کرداروں کی بھر مار نہ ہو۔ جس دور میں ریڈیو ڈرامے کا آغاز ہوا اس وقت تھیٹر کا چلن عام تھا۔ سید ذوالفقار بخاری جب بمبئی ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر بنا کر بھیجے گئے تو اس وقت تھیٹر کا فی مقبول تھا۔ انہوں نے اپنی خودنوشت میں ایک جگہ لکھا ہے۔ "بمبئی میں ڈرامہ پیش کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھیٹر وہاں بچے بچے کی گھٹی میں پڑا ہے اور فلم ایکٹر اور فلم کمپنیوں کی بھر مار ہے۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور نہایت انہماک سے ڈرامے کئے دہلی سے کچھ ایکٹر ساتھ لے گیا ان میں شکیل احمد اور رونق کے نام قابل ذکر ہیں۔" -- (بحوالہ سرگذشت!سید ذوالفقار بخاری صفحہ 225 ایڈیشن 1995 ء) آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ شروع ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ کوئی بھی پروگرام نشر ہونے کے بعد اس کے مسودے کو محفوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مسودے کے تحفظ کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے نہایت قیمتی مسودے بھی زمانے کے ہاتھوں برباد ہو گئے ان مسودوں میں سے چند ایک کو کسی نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر شائع کر ادیا اور بالخصوص ریڈیو ڈرامے کی اسکرپٹ کو اسٹیج ڈرامے میں تبدیل کر کے شائع کرایا گیا جس کی وجہ سے ریڈیو ڈرامے کے معیار کو متعین کرنے میں خاصی دشواری پیش آئی ہے۔ گذشتہ دو تین دہے میں چند ایسے لکھنے والے بھا سامنے آئے ہیں جو صرف ریڈیو کے لئے لکھتے ہیں اور پھر اسے کتابی صورت میں من و عن شائع کرتے ہیں۔ ریڈیو کے اول دور کے اردو ریڈیو ڈرامے جو کتابی صورت میں محفوظ ہیں کہ علاوہ باقی سب زمانہ کے ہاتھوں برباد ہو گئے کچھ پرانی ریکارڈنگ آل انڈیا ریڈیو کی آرکائیوز میں محفوظ ہے جہاں عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں۔ ریڈیو ڈرامے کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلا نام ان ادارے سے وابستہ شخص سید ذوالفقار علی بخاری کا آتا ہے۔ انہوں نے ریڈیو کے لئے ڈرامہ تو نہیں لکھے لیکن ڈراموں میں اداکاری ضرور کی۔ وہ ریڈیو ڈرامے کے رموز و نکات سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اس دور میں ریڈیو کے لئے ڈرامہ لکھنے والوں کو اس فن سے آشنا کیا اور اداکاروں کی تربیت بھی کی۔ کمال احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ: "ذوالفقار اسٹیج ڈراموں کے ماہر ہونے کے باوجود اسٹیج ڈراموں کی تکنیک کو ریڈیو سے الگ رکھ کر جدید ریڈیو ڈرامے کے موجد بنے اردو میں ریڈیو کی اس صنف میں پہل کرنے کا کام انہی کا رہے گا۔" -- (بحوالہ: اردو ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ترسیل و ابلاغ کی زبان: ڈاکٹر کمال احمد صدیقی صفحہ 442، 1998) کرشن چندر کرشن چندر 1939ء میں ریڈیو کے ملازم ہوئے اور اسسٹنٹ کے طور پر نو سال تک کام کیا پھر فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے خاص طور سے ریڈیو کے لئے ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ دروازہ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل ڈراموں کے عنوانات ہیں: سرائے کے باہر قاہرہ کی ایک شام دروازہ کھول دو۔ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں کرشن چندر کے لکھے ہوئے ڈرامے کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ یہ ہیں: ایک روپیہ ایک پھول، کتے کی موت اور سرائے کے باہر، لیکن ان ڈراموں کی کوئی اسکرپٹ موجود نہیں ہے۔ سعادت حسن منٹو آج کی اردو دنیا سعادت حسن منٹو کو ایک افسانہ نگار کے طور پر جانتی ہے لیکن وہ ایک عرصے تک ریڈیو سے وابستہ رہے اور بے شمار ڈرامے لکھے۔ عشرت رحمانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: "سعادت حسن منٹو 1939 میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملازم ہو کر آئے اور نشری تکنیک کے اعلیٰ نمونے پیش کرنے لگے۔ متعدد کامیاب ڈرامے لکھے اور اچھوتی آواز میں اپنے کمالات سے ریڈیو کو نیا اسلوب بخشا۔ ان کے نشری ڈرامہ یہ ہیں: کروٹ ماچس کی ڈبیا اتوار خودکشی نیلی رگیں رندھیر پہلوان تین موٹی عورتیں آؤ مسلسل خاکے محبت کی پیدائش نیپولین کی موت قلو پطرہ کی موت منٹو کے ڈرامے اور جنازے۔ (بحوالہ اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید( اپندر ناتھ اشک اپندر ناتھ اشک کا تعلق ریڈیو سے بڑا گہرا رہا ہے۔ یکم جون 1961 ء کو آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوئے۔ دوران ملازمت انہوں نے ایک سے ایک کہانیاں اور ڈرامے لکھے صبح و شام کے عنوان سے انجو کا ایک ایکٹ اور ازلی راستے کے عنوان سے دو ایکٹ کے ڈرامے لکھے۔ ان کی زیادہ تر اسکرپٹ زمانہ کے ہاتھوں برباد ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پوری تفصیل کا پتہ نہیں چل پایا۔ میاں لطیف الرحمن ایک مدت تک آل انڈیا ریڈیو میں ملازم رہے اور آخر میں ڈائر یکٹر پروگرام کی حیثیت سے مستعفی ہوئے۔ انہوں نے 1935ء میں لکھنؤ ریڈیو کے لئے پہلا ڈرامہ لکھا لطیف صاحب کے خاص نشری ڈرامے حسب ذیل ہیں: شادی کا پیغام، قیدی، گلدان، دوزخ، پس منظر، چندر گپت، شیرشاہ کا انصاف، چلتی گاڑی، غرناطہ کا مجاہد، عمر خیام، نور جہاں، رقاصہ (نشری اوپیرا شوکت تھانوی کے ساتھ مل کر لکھا) یہ ڈرامے اب تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مرزا عظیم بیگ چغتائی اور گوہر شادانی کے ڈرامے بھی اکثر ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہوتے رہے ہیں۔ رفیع پیرزادہ نشریات کی دنیا میں انہیں رفیع پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے مختلف اسٹیشنوں کے لئے متعدد کامیاب ودلچسپ ڈرامے لکھے وہ ریڈیو میں ڈرامے کے پہلے پروڈیوسر تھے جنہیں 1936 ء میں ریڈیو ڈرامے کی تکنیک کی جانکاری کے لئے جرمنی بھیجا گیا تھا جن کے ڈرامے نے نشریاتی ادب میں بالخصوص اور بالعموم اردو ادب کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ان کے لکھے اور پروڈیوس کئے ہوئے جو ڈرامے زیادہ مقبول ہوئے وہ یہ ہیں۔ لیلے، عقبیٰ کا میدان، ناموس، دیوانہ بکار خویش، ولے بخیر گذشت، سناٹا، تصادم، اوتار، راز و نیاز، مارآستیں، سازباز، تکمیل جرم اور القاب۔ شوکت تھانوی ملک کے مقبول ترین مزاج نگار تھے۔ آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ کے منشی جی اور ریڈیو پاکستان کے قاضی جی کے نام سے کافی شہرت حاصل کی۔ شوکت تھانوی نے 1938میں آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ کے لئے اپنا پہلا ڈرامہ "خدا حافظ" لکھا۔ اس کے بعد لکھنؤ اسٹیشن کے عملے میں مصنف اور اداکار اور پروڈیوسر کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ انہوں نے نشری ڈرامے میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ شوکت تھانوی چونکہ خود ایک چابک دست صناع و اداکار ہیں۔ اس لئے ان کی نشری تمثیل کی اہم خصوصیت کردار نگاری ہے اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نشری دنیا کو کئی مستقبل کردار دئے ہیں جو ضرب المثل بن گئے ان میں آل انڈیا ریڈیو کے منشی جی اور ریڈیو پاکستان لاہور کے قاضی جی زندہ جاوید ہیں۔ ان کے نشری ڈراموں کے کئی مجموعے چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان میں ایک مجموعہ کا نام "سنی سنائی" ہے۔ اس طرح ریڈیو ڈرامہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں راجندر سنگھ بیدی، پروفیسر اشتیاق حسین قریشی، شاہد احمد دہلوی، مجموعہ سحر ہونے تک۔ سید انصار ناصری کے ڈراموں کے مجموعے کا نام وحشی ہے۔ مرزا ادیب نے ریڈیو کے لئے کافی تعداد میں ڈرامے لکھے جن میں چند مشہور ڈرامے یہ ہیں: آنندکمار، ماں شہنائی، دیوار، بیٹا، بہن، پہاڑ کے دامن میں، فرعون کی محبوبہ وغیرہ ان کے علاوہ ملک حبیب احمد، حفیظ جاوید، اسلم ملک، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، محمود نظامی، سلطان حسین، انتظار حسین، یوسف ظفر، مختار صدیقی، عمیق حنفی، رفعت جمالی، کرتار سنگھ دگل، حیات اللہ انصاری، مجاہد علی عابد، محمد حسن، شمیم حنفی، اظہر افسر، فضیل حسین، وارث احمد خاں، قمر جمالی، آفاق احمد، رفعت سروش اور اظہار اثر نے ریڈیو ڈرامے لکھے۔ لہٰذا اردو کے نشری ڈراموں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔ جسے کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج اسٹیج پر سرعام اردو کے ڈرامے ہندی ڈرامے سے منسوب کر کے اسٹیج کئے جا رہے ہیں۔ اس بحرانی دور میں ریڈیو ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے خالص اردو طبع زاد اور اخذ کئے ہوئے ڈرامے نشر کریں ہیں۔ تاہم ہمارے ناقدین نے اس صنف کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اس کی قدرو قیمت اور ادبی حیثیت کے تعین میں دشواری آئی ہے۔ ان ڈراموں نے اردو کے فروغ میں نمایاں کردار کیا ہے۔ اسٹیج کے ڈرامے تو اسٹیج تک محدود رہے ہیں لیکن نشری ڈرامے کی پہنچ معاشرے کی عمومی سطح تک ہے جس کی وجہ سے نشری ڈراموں نے اردو ادب کو ڈرامے کے حوالے سے دور دراز علاقوں تک پہنچایا ہے اور زبان کے حوالے سے بھی اہم کام کیا ہے کیونکہ ریڈیو کا ہر پروگرام بولنے والی زبان میں نشر کیا جاتا ہے۔ اردو فیچرس آل انڈیا ریڈیو کے اوائل دور میں جب مختلف نشریاتی اصناف کی ہیئت ک تجربہ کیا جا رہا تھا اس زمانہ میں عام لوگوں کی رائے میں ڈرامہ فیچر تھا اور فیچر ڈرامہ۔ اس وقت ریڈیو کے ارباب اقتدار کے سامنے ریڈیو فیچر کا کوئی واضح تصور نہیں تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھایا گیا۔ فیلڈن اور بخاری نے کچھ فیچر پر وڈیوسر کئے لیکن وہ لائق ستائش نہیں تھے۔ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ریڈیو کی اس صنف کی طرف لوگوں نے توجہ دی۔ تقریباً آل انڈیا ریڈیو کے سبھی مراکز سے مختلف زبانوں میں فیچر نشر کئے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں زیادہ تر فیچر حیدرآباد، سری نگر، بھوپال، دہلی اور نگ آباد اور بیرونی نشریات کی اردو سروس سے نشر کئے جاتے ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج بھی آل انڈیا ریڈیو میں روایتی انداز کے فیچر پروڈیوس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میں اپنی گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے یہاں چند اردو فیچر کا ذکر کروں گا۔ اگر اردو سروس میں موجود ادبی فیچر کی ایک مختصر فہرست پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے بھی اپنے طور سے ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اردو سروس کے ادبی فیچر کا عنوان آئینہ ہے جسے دو آوازوں میں براڈ کاسٹ کیا جاتا ہے اور اردو کے مشاہیر نے اس سروس کے لئے بے شمار فیچر لکھے ہیں: شیخ محمد ابراہیم ذوق ڈاکٹر تنویر احمد علوی/سلامت اللہ مرم کوئی نہ جانے ڈاکٹر مظفر حنفی ہولی اردو شاعر ی میں ڈاکٹر مظفر حنفی قرة العین حیدر ڈاکٹر مظفر حنفی اردو شاعری میں رام کی عظمت ڈاکٹر مظفر حنفی حضرت نظام الدین اولیاؒ نثار احمد فاروق مرزا مظہر جان جاناں پروفیسر محمد حسن گذشتہ لکھنؤ سعادت علی صدیقی کار جہاں دراز ہے شمیم حنفی خبر تحیر عشق سن (تصوف) شمیم حنفی ولی دکنی غلام ربانی تاباں غالب مرزا محمود بیگ میر تقی میر ساغر نظامی خوب پہچان لو مجاز ہوں میں آل احمد سرور سر انشا ڈاکٹر نیر مسعود یہ فہرست بہت طویل ہے اور لگ بھگ ساٹھ ستر فیچر آج بھی مختلف ادبی موضوعات پر اردو سروس میں محفوظ ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر مظفر حنفی کی کتاب ریڈیائی تقریر اور فیچر کی خاص اہمیت ہے کہ اس کتاب میں شامل فیچر جو ادبی موضوعات پر ہیں۔ من و عن شائع کئے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری اہم کتاب حضرت آوارہ کے دو ریڈیائی فیچر کا مجموعہ۔ میرا فرمایا ہوا ہے یہ کتاب 1960 میں چھپی تھی حضرت آوارہ، ریڈیو میں اسکرپٹ رائٹر تھے اور بے شمار جھلکیاں انہوں نے لکھیں۔ اس کتاب میں شامل سبھی فیچر مزاحیہ موضوعات پر ہیں۔ آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریڈیو آج بھی نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنے مختلف اصناف جیسے ٹاک، ڈرامہ، فیچر، انٹرویو، کے ذریعہ ادب کو شہروں کی قید سے باہر نکل کر grass root سطح پر اردو جاننے والوں تک پہنچا رہی ہے جسے غیر نشریاتی ادب نہیں کر سکتی۔ یہاں ضمناً ایک اور بات بتاتا چلو کہ آج کی تاریخ میں آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس دنیا بھر میں اردو نشریات کی سب سے بڑی سروس ہے جو روز انہ اپنے سامعین کے لئے سوابارہ گھنٹے کا پروگرام نشر کرتی ہے اس کے علاوہ عالمی نشریات کے نیٹ ورک پر بھی اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بی بی سی کے علاوہ امریکہ، ایران، روس، جرمنی، چین، جاپان، اٹلی، ترکی، بنگلہ دیش، سعودی عربیہ، کویت جیسے ممالک سے بھی روزانہ اردو میں پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں جس میں مختلف ادبی موضوعات پر پروگرام نشر کئے جا تے ہیں لیکن صد افسوس ہے کہ جس ادارے خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ میں شکر گزار ہوں دہلی سرکار کے اردو افسرکا جنہوں نے اس موضوع پر مجھے مقالہ پڑھنے کی دعوت دی۔ اردو کا زوال۔ ذمّہ دار کون؟ رشید انصاری حیدرآباد ہر دور میں اردو کا اہم مرکز رہا ہے، سقوط حیدرآباد سے قبل آصف جاہی دور حکومت میں حیدرآباد میں اردو کو جو فروغ اور ترقی حاصل ہوئی تھی وہ تاریخ کا ایک سنہراباب ہے۔ آصف جاہی دور میں سرکاری زبان اردو تھی۔ یوں تو ریاست میں اردو مادری زبان والے اقلیت میں تھے اور تلنگانہ، مرہٹواڑہ اور کرناٹک میں علیٰ الترتیب تلگو، مراٹھی اور کنڑی بولنی والے اکثریت میں تھے لیکن ہر جگہ اردو کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ ہم نے اپنے بچپن (سقوط حیدرآباد کے چند سال بعد بھی) ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کی اردو میں استعداد اور قابلیت اپنی مادری زبان (مراٹھی یا تلنگی یا کنڑی) کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ حاصل کلام یہ کہ ہر طرف اردو کا بول بالا تھا۔ اردو کی مقبولیت میں سرکاری جبر کا دخل نہ تھا۔ سرکاری زبان ہونے کا فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن مقبولیت اور بات ہے۔ ہندی ہمارے ملک کی سرکاری زبان ہے لیکن سرکاری زبان ہونے کے باوجود ایسے علاقوں میں جہاں کے عوام کی مادری زبان ہندی نہیں ہے وہاں سرکاری زبان ہونے کے باوجود ہندی مقبول نہیں ہے۔ خاص طور پر جنوبی ہند اور شمال مشرقی ریاستوں کے زیادہ تر باشندے ہندی سے ناواقف ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مرحوم ریاست حیدرآباد خالص اردو کی ریاست تھی جہاں اردو نہ صرف سرکاری زبان تھی بلکہ عوامی زبان بھی تھی۔ اردو کا ریاست کی تینوں علاقائی زبانوں تلنگی، کنڑی اور مراٹھی پراس قدر اثر تھا کہ ریاست حیدرآباد کے اضلاع، مرہٹواڑہ، کرناٹک اور تلنگانہ میں بولی جانے والی مراٹھی، کنڑی اور تلنگی ریاست حیدرآباد سے باہر بولی جانے والی ان زبانوں سے قدرے مختلف ہو گئی تھی (بلکہ اب تک ہے) حیدرآباد اور دیگر شہری علاقوں میں بولی جانے والی ہر زبان پر اردو کا اثر نمایاں ہے۔ حیدرآباد میں جو تلگو بولی جاتی ہے وہ گنٹور اور نیلور میں بولی جانے والی تلگو سے قدرے الگ ہے۔ آندھرا کے علاقوں میں بولی جانے والی تلگو خالص ہے جو بندہ تلگو سے بالکل ناواقف ہو وہ مذکورہ بالا مقامات پر دو مقامی افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو کا نفس مضمون تک قطعی نہیں سمجھ سکتا ہے جب کہ حیدرآباد بلکہ نظام آباد، وقار آباد اور محبوب نگر میں ہونے والی تلگو گفتگو کو تلگو نہ جاننے والے بھی کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں اور کچھ یہی فرق پونے اور اور نگ آباد میں بولی جانے والی مراٹھی اور گلبرگہ اور بنگلور میں بولی جانے والی کنڑی کا ہے لیکن یہ فرق رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے کیوں کہ اردو کا اثر دوسری زبان بولنے والوں پر کم ہوتا جا رہا ہے۔ بعض نا فہم اور ناواقف لوگ اپنی نام نہاد روشن خیالی یا کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ آصف جاہی حکومت نے علاقائی زبانوں کو جو اکثریتی طبقہ یا ہندو بولتے تھے نظر انداز کر کے ان پر اردو کو جو مسلمانوں کی زبان تھی، مسلط کر دیا تھا۔ یہ بات نا صرف مہمل اور بے معنی ہے بلکہ بے جواز اور بے بنیاد ہے کہ مملکت حیدرآباد کی تینوں علاقائی زبانوں میں کسی ایک ز بان کو اکثریتی زبان نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کنڑی زبان صرف تین اضلاع (گلبرگہ، رائچور اور بیدر میں بولی جاتی تھی جب کہ مراٹھی پانچ اضلاع اور نگ آباد، ناندیڑ، پربھنی، بیڑ اور عثمان آباد کی علاقائی زبان تھی۔ ظاہر ہے کہ سولہ میں سے پانچ اور تین اضلاع میں بولی جانے والی زبان کو ریاست کی اکثریتی زبان کہنا بے معنی تھا۔ تلگو بے شک آٹھ ضلعوں (عادل آباد، کریم نگر، نظام آباد، میدک، اطراف بلدیہ (موجودہ ضلع رنگاریڈی) محبوب نگر، ورنگل (ضلع کھمم پہلے ورنگل میں شامل تھا اور نلگنڈہ) کی علاقائی زبان تھی۔ بظاہر تلگو ریاست کی سب سے بڑی علاقائی زبان تھی لیکن تلگو بولنے والوں کی تعداد تلنگانہ میں صد فیصد نہیں تھی۔ شہر حیدرآباد، اضلاع نظام آباد، میدک، اطراف بلدی ہ اور محبوب نگر وغیرہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد قابل لحاظ تھی۔ اس طرح پوری مملکت حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ قلیل تعداد میں ایسے غیر مسلم بھی تھے جن کی مادری زبان اردو تھی۔ اسی طرح گجراتی، پنجابی، ملیالم اور تامل بولنے والے بھی قلیل تعداد میں سہی آصف جاہی مملکت میں آباد تھے اور ان سب کی دوسری زبان اردو ہی تھی۔ اس طرح اردو ہر لحاظ سے ریاست کی تینوں علاقہ واری زبانوں (تلگو، مراٹھی اور کنڑی) کے مقابلے میں بلا شبہ قابل ترجیح تھی۔ دوسری جانب اردو سالوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے ملک بھر کی واحد رابطہ کی زبان رہی تھی۔ سلطنت آصفیہ میں اس کے قیام کے وقت سے ہی اردو سرکاری زبان نہیں تھی بلکہ رسم دنیا کے مطابق سرکاری زبان فارسی تھی تو کیا کبھی یہ اعتراض کسی نے کیا تھا کہ مراٹھی، تلنگی اور کنڑی بولنے والوں کے ساتھ اردو بولنے والوں پر فارسی زبان کو آصف جاہی حکمرانوں نے مسلط کر دیا تھا۔ اس قسم کی شکایت کے ذکرسے تاریخ خالی ہے۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ مرہٹہ شاہی دربار میں خاص طور پر ہر پیشوا کے پاس فارسی بڑی حد تک سرکاری کاموں میں استعمال ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں اس وقت جب کہ فارسی سرکار اور دربار کی زبان تھی اس وقت رابطے کی زبان اردو ہی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو کو مسلط نہیں کیا گیا تھا بلکہ اردو کی حلاوت اور خوبیوں کو دیکھ کر غیر اردو داں طبقات نے خود اردو کو اپنے اوپر مسلط کر لیا تھا۔ اگر منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو مملکت آصفیہ میں بولی جانے والی چار زبانوں میں سے کسی ایک کو ہی سرکاری زبان بنایا جاسکتا تھا۔ تلنگی، مراٹھی اور کنڑی صرف اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھیں۔ صرف اردو ہی تمام مملکت میں ہر طرح سے استعمال کی جانے والی زبان تھی اور رابطے کے لیے کوئی اور زبان تھی ہی نہیں تو اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے میں کیا قباحت تھی؟ اردو ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوستی، یگانگت اور یکجہتی قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ تھی۔ حیدرآباد کا ہندو مسلم اتحاد بے مثال تھا اور اس اتحاد کا راز اردو زبان تھی جو اپنے بولنے والوں کو جوڑے رکھتی تھی۔ اس لیے اردو کو سرکاری جبر کے ذریعہ یا سرکاری دربار کے زیر اثر غیر اردو داں عوام پر مسلط کرنے کا الزام بے جواز، بے بنے اد اور بے معنی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان رہنے کا فائدہ ضرور ہوا لیکن تلگو، مراٹھی اور کنڑی کی بہ نسبت اردو زیادہ ترقی یافتہ تھی اور ہے۔ اردو میں جامعاتی سطح پر طب، قانون اور انجینئرنگ کے پیشہ ورانہ نصابوں کے مختلف مضامین کی تعلیم کا جو نظام تھا وہ آج تک مراٹھی، تلگو اور کنڑی زبان میں نہ ہو سکا جب کہ ان زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے (سچ تو یہ ہے کہ جامعہ عثمانیہ جیسی اردو ذریعۂ تعلیم کی جامعہ برصغیر ہند۔ پاک اور بنگلہ دیش میں کسی اور زبان میں آزادی کے بعد 62سال کے عرصے میں وجود میں نہ آسکی جو کام آصف سابع نے کیا تھا وہ کوئی اور نہیں کرسکا۔ اس لیے اردو پر سرکاری و شاہی جبر کے سہارے دوسری زبان والوں پر مسلط ہونے کا الزام اندھے تعصب بلکہ جہالت کا نتیجہ ہے اور اب سے چند سال قبل تک اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں قرار دیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد اردو کو مخالف اردو عناصر کے مظالم سے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو، ابوالکلام آزاد جیسے لوگ نہ بچاسکے۔ پارلیمان میں اردو اشعار پڑھنے والے پنڈت نہرو جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے تھے اور اردو زبان کے ذریعہ علم و ادب کی دنیا میں اونچا مقام پانے والے ابوالکلام آزاد نے اردو کی عملاً کوئی خدمت نہیں کی۔ متحدہ قومیت کے ان عظیم علم برداروں کو بخوبی پتہ تھا کہ متحدہ قومیت کی سب سے بڑی نشانی ہی نہیں بلکہ مثال اور ثبوت اردو ہی تھی۔ کیا تاریخ اس بات کو فراموش کر دے گی؟سلطنت آصفیہ حیدرآباد کا خاتمہ کر کے اسے انڈین یونین میں ضم کرنے والوں سے یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ سقوط حیدرآباد یا حیدرآباد کے انضمام کا اردو کے خاتمے کی سازش سے کیا تعلق تھا؟ کیا حیدرآباد کا انضمام (اس پر فوجی حملے کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد) صرف اردو کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا؟ جامعہ عثمانیہ اور دیگر سرکاری مدارس اور کالجوں سے نہ صرف اردو ذریعہ تعلیم بلکہ بعض مدارس میں اردو کی زبان کی حیثیت سے تعلیم کیوں ختم کر دی گئی تھی؟ اگر حیدرآباد کی آزادی کا اعلان غداری تھا تواس کی سزا آصف سابع میر لائق علی وزیر اعظم حیدرآباد اور سید قاسم رضوی مرحوم کو نہیں دی جا کر آخر اردو کو کیوں دی گئی؟ جا معہ عثمانیہ سے اردو کے خاتمے کی وجہ سلطنت آصفیہ کو فتح کرنے کے بعد اس کا اقتدار سنبھالنے والے حکمراں تو نہ بتا سکے تھے تو اب کوئی کیا بتائے گا؟ جامعہ عثمانیہ اور تمام تعلیم گاہوں سے اردو کے خاتمے کے لیے اگر حیدرآباد کو انضمام پر مجبور کر دیا گیا تھا تو یہ کوئی بتا دی کہ آزاد حیدرآباد اور حکومت ہند کے مذاکرات کے دوران ریاست کی سرکاری زبان اور اردو کے خاتمے کا مطالبہ تو کیا اس کا ذکر بھی نہیں کیا گیا؟ آخری سوال ان سے ہے جن کی مادری زبان اردو ہے یا جنہوں نے اردو کا استعمال مادری زبان سے زیادہ کر کے شہرت اور ناموری حاصل کی ہے۔ ہمارا یہ سوال ہے کہ اردو والوں نے خود ہی اردو سے بے نیازی بلکہ غداری کر کے کیا پایا؟ کیا کسی نے 1948ء کے حیدرآباد کے مدارس (بشمول مشن اسکولس) سے اردو کے خاتمے پر احتجاج کیا تھا؟ نہیں بالکل نہیں۔ ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ چالیس چالیس تا پچاس پچاس ہزار عطیہ دے کر اپنے بچوں کو ہم لوگ جس اسکول میں پڑھاتے ہیں اس اسکول کے انتظامیہ سے یہ تک کہنا نہیں چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اردو پڑھانا چاہتے ہیں۔ جب اردو والے خود اردو پڑھانے کی بات نہ کریں تو غیروں سے کیا شکایت کی جائے؟ اگر یہی حال برقرار رہا تواس زبان اور زبان والوں کا اللہ جانے کیا حشر ہو؟ اردو کے مسائل نہ ختم ہوئے ہیں نہ ختم ہوں گے تاہم اردو کے غداروں کو ان کی بے حسی اور بے ضمیری کی سزا کون دے گا؟ اردو اپنے رسم الخط کے ساتھ ہی زندہ رہے گی عارف عزیز ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ اردو بول کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندی بول رہے ہیں اردو مکالموں، گیتوں اور اصلاحات سے لئے گئے عنوانات پر بنی فلمیں دیکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہندی فلمیں دیکھ رہے ہیں، دن بھر ریڈیو اور ٹی وی سے اردو گیتوں کے ریکارڈ سنتے ہیں، ان گیتوں، قوالیوں اور غزلوں کے کیسٹ بڑے چاؤ سے خریدتے ہیں اس کے باوجود اردو سے گھبراتے ہیں اور اسے ایک غیر ملکی زبان کہتے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ ہم نے اردو رسم الخط سے ناواقف طبقوں کو اس سے متعارف کرانے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی، نہ یہ بتایا کہ اردو جسے ہندی کی شاخ یا شیلی کہا جانے لگا ہے اپنے آپ میں ایک مکمل زبان ہے، یہ ہندی سے پیدا نہیں ہوئی اسلئے کہ اردو کی پیدائش کے وقت ہندی نام کی کوئی زبان ہندوستان میں موجود نہیں تھی، ایک طرف شمالی ہند کی مقامی بولیاں تھیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی لائی ہوئی عربی، ترکی اور فارسی زبانیں تھیں، لیکن جب ہندو مسلم عوام ایک دوسرے کے قریب آئے تو ان تمام زبانوں اور بولیوں کے ہلکے پھلکے اور شیریں الفاظ کی آمیزش سے ایک نئی زبان ابھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مکمل اور نہایت مقبول زبان بن کر سرکاری زبان فارسی کو للکارنے لگی۔ اردو کی پیدائش، ارتقائ، اور نشو و نما میں کسی حکومت کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ دو قوموں کے میل و ملاپ کے نتیجہ میں پروان چڑھی ہے اس لئے اردو کو اپنے رسم الخط کے ساتھ زندہ رہنا چاہئے جو لوگ زبان یا اس کے رسم الخط کو نظر انداز کر کے قومی اتحاد و اتفاق کی بات کرتے ہیں وہ ہرگز مخلص نہیں کہے جاسکتے بلکہ قوی اندیشہ ہے کہ اس طرح اردو اپنے رسم الخط کے امتیاز سے محروم ہو کر اس زبان میں ضم ہو جائے جس کا وہ رسم الخط اپنا لے گی۔ خاص طور پر ہندی اور اردو جو ایک لسانی حقیقت کی دو شکلیں کہی جاتی ہیں وہ ایک دوسرے میں جذب ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں اور انجذاب کے اس عمل سے اردو کو بچانے والا صرف اس کا رسم الخط ہے جو حضرات آج اردو کے تحفظ کے لئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں وہ اس "ہمالیائی حقیقت" کو جھٹلا دیتے ہیں کہ ہندی کے علاقے میں اردو کا وجود اسی رسم الخط سے عبارت ہے ورنہ اردو کے اسالیب میں وہ وسعت ہے کہ ایک طرف اس کے ڈانڈے ہندی سے ملے ہوئے ہیں تو دوسری طرف فارسی سے۔ اردو رسم الخط کے پیچھے ایک تہذیب اور تاریخ ہے جسے وقتی مفاہمتوں ذاتی مصلحتوں اور نجی کاروباری ضرورتوں کی خاطر قربان نہیں کیاجاسکتا۔ ہر زبان کی تہذیب اور انا تاریخ کے عمل میں رفتہ رفتہ تحلیل ہو جاتی ہے اس لئے حقیر مصالح کی خاطر اس سے روگردانی کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کی وکالت کرنے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ جرأت استدلال پیش کیوں نہیں کرتے کہ اردو زبان کیونکہ ختم ہو رہی ہے اس لئے انہیں ہندی اپنا لینی چاہئے۔ ہمارے خیال میں اس تجویز میں پھر ایک لسانی استدلال ملتا ہے کہ اقلیتوں نے بارہا اپنی زبانیں بدلی ہیں، جزوی اور محتاط جرأت کے مقابلہ میں یہ بے محابا ہمت کم از کم ایک نسل کو لسانی دو رنگی سے بچا لے گی ورنہ گذشتہ 16 برس سے اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے کی جو مہم کامیاب نہ ہو سکی وہ اپنوں کے ہاتھوں انجام پا جائے گی- علی گڑھ تحریک مقاصد اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراءمیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کےکئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول ، مذہب کی عقل سے تفہیم ، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں ۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ، اردو ہندو مسلم تعلقات ، انگریز اور انگریزی حکومت ،انگریزی زبان ، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں ادبی زاویہ علی گڑھ تحریک کا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے ۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف ، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا ۔ طبعی علوم ، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی ۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی سلیس افسانوی نثر ، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔ سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی ۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سرسید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔ اردو نثر چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لئے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کے بجائے گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار ، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے مقفٰی اور مسجع اسلوب سے نجات دلا کر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر سامنے آئی۔ سوانح اور سیرت نگاری علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا ۔ اٹھارویں صدی میں عیسائی مبلغین نے ہادی اسلام حضرت محمد اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کرکے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ عیسائی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اس لئے اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ سرسید کی ”خطبات احمدیہ “ مولوی چراغ علی کے دورسالے ”بی بی حاجرہ“ ، اور ”ماریہ قبطیہ“ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات الا“ میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا۔ لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ مولانا شبلی نے نامور ان اسلام کوسوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ مولانا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ”یادگار غالب“ ”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدی“ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریا ں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔ تاریخ نگاری سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لئے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لئے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاءکے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“ ، ”المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا اللہ نے ”تاریخ ہندوستان “ مرتب کی۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لئے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید ” ہر فن کے لئے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“ اس لئے علی گڑھ تحرےک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لئے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔ علی گڑھ تحریک اور تنقید علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقاءرکھنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبداللہ سرسید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سرانجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاءکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ اگرچہ سرسید احمد خان نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیالات نے تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈالا۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلیٰ تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔ سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا ۔ انہوں نے انداز بیان کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا ۔ سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔ علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی ۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی ۔ گو کہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی ۔ تاہم ان کے رفقاءمیں سے الطاف حسین حالی نے ”مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ”یادگار غالب “ میں کیا۔ مولانا حالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم “ ہے۔ سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قار ی کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی ۔ لیکن انشاءکے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقاءمیں سے مولانا شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکاءاللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے۔ علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کئے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلاً سپکٹیڑ، ٹیٹلر ، اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراءکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سرسید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو مذکورہ بالا رسائل کا تھا۔ سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لئے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essayکی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہوگیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔ تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان ، محسن الملک ، اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا ۔ چنانچہ محسن الملک ، وقار الملک ، مولوی چراغ علی ، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید احمد خان ، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کردیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انہیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا ۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لئے انہیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔ علی گڑھ تحریک اور نظم علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا سبب خود سرسید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ ” ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“ اس بناءپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔ سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نےچر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ ”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی ۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“ چنانچہ سرسیداحمد خان کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی ۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبدالحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔ مجموعی جائزہ مختصر یہ کہ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی ۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاءسے ہوتا ہے۔ سوانح نگار ، سیرت نگاری ، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔ ترقی پسند تحریک (Progressive Literary Movement) آج سے کوئی سات دہے قبل 1936ء میں لندن میں مقیم کچھ ہندوستانی ادیبوں نے جن میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر ملک راج آنند وغیرہ شامل تھے ، ایک ادبی انجمن کا خاکہ مرتب کیا اور '' انجمن ترقی پسند مصنفین'' کی بنیاد ڈالی ۔ انگریزی میں اس کا نام رکھا گیا : Progressive Writers Association ۔ اس کی پہلی سالانہ کانفرنس 1936ء میں ہی بمقام لکھنؤ منعقد ہوئی ۔ اُس وقت کے صفِ اوّل کے ادیب منشی پریم چند نے اس کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میں وہ یادگار جملہ ادا کیا : '' ہمیں اپنے حسن کا معیار بدلنا ہوگا ! '' انجمن کے مقاصد میں ... مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو ادب میں پیش کرنا ، ہندوستان کی جدوجہد ِ آزادی میں ادیبوں کو اپنے قلم کے ذریعے شریک ہونے کی تلقین ، اور سب سے بڑا بنیادی مقصد سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف بغاوت اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی حمایت ... شامل تھے ۔ اِس طرح یہ ادبی تحریک جو ''ترقی پسند ادبی تحریک '' Progressive Literary Movement کے نام سے مشہور ہوئی ، دراصل کمیونسٹوں کی تحریک سے وابستہ تھی ۔ اس تحریک کے تقریباً نوے (90) فیصد ادیب و شاعر کمیونسٹ ہوا کرتے تھے (اور اب بھی انہی کے ہاتھ میں یہ تحریک ہے )۔ کارل مارکس ، جو علوم ِ معاشیات میں ''مارکسزم'' کا بانی تھا ، اِن کا 'امام' تسلیم کیا گیا ۔ اُس وقت کے غیر منقسم شدہ ہندوستان کی تقریباً سبھی زبانوں میں یہ تحریک پھیلی ۔ روس اور چین جیسے کمیونسٹ ملک اِن ادیبوں کے حامی تھے ۔ اُردو میں اسے ''اشتراکی ادیب'' بھی کہا جاتا ہے ۔کیونکہ کمیونزم کا ترجمہ ''اشتراکیت'' کیا گیا ۔ اِس میں شک نہیں کہ اِس تحریک نے عشق و عاشقی کی فرسودہ روایات کو توڑا اور '' ادب برائے زندگی '' کا نعرہ دیا ۔ اپنی تحریروں میں حسن و عشق کے موضوعات کو چھوڑ کر زندگی کے مسائل کو سمویا اور '' غمِ جاناں'' کے مقابلے میں '' غمِ دوراں'' کی بات کی ۔ نثر میں ''افسانہ'' کو اس تحریک نے نیا خون ، نیا آہنگ بخشا ۔ صفِ اوّل کے افسانہ نگار اِسی تحریک کی دین ہیں ۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ تحریک اپنی انتہا پسندی کا شکار ہو گئی ۔ یہ کہا گیا کہ ایک ادیب / شاعر کو کسی 'ازم' یا کسی سیاسی پرچار کا ایجنٹ نہ رہنا چاہئے ۔ سماج کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرتے کرتے یہ تحریک چند بندھی ٹکی روایات کی علمبردار بن کر رہ گئی ۔ ادبی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ۔ پروپگنڈہ بازی اور نعرہ بازی کی گونج اِن قلمکاروں کی تحریروں میں سنائی دینے لگی ۔ چنانچہ 1953ء کی'' بھیونڈی کانفرنس'' میں یہ تحریک سخت تنقیدوں کا نشانہ بنی اور بہت سے ادیب و شاعر اِس تحریک سے علحٰدہ ہو گئے اور یہ کہا کہ : اب اِس تحریک کی ضرورت نہیں ۔ ادیب کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی اساس پر ادب کی تخلیق کرنا چاہئے ، نہ کہ کسی اشتراکی ہدایت ناموں کا اشتہار بن کر ڈھنڈورچی بن جائے ۔ رومانوی تحریک رومانوی تحریک کو عام طور پر سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ کیونکہ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت ، منطقیت ، استدالیت اور معنویت سے بوجھل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تمدنی اقدار سے گراں بار تا۔اس جذبے اور احسا س کے خلاف رومانی نوعیت کا ردعمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کی رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں بحث کریں ، ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔ رومانیت کا مفہوم رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔ مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔ ١) عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا ٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔ ٣) عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔ مغرب میں رومانیت یورپ میں یہ تحریک کب اُبھری اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ یورپ میں اس تحریک کا دور عروج اٹھارویں صدی کے وسط تک محیط ہے۔ اس تحریک کو سب سے زیادہ مقبولیت فرانس ، انگلستان اور جرمنی میں حاصل ہوئی۔ ادبیات کے سلسلے میں اس لفظ کو سب سے پہلے 1781ءمیں وارٹن اور برڈ نے استعمال کیا۔ اس کے بعد 1820ءمیں گوئٹے اور شلر نے ادبیات کے سلسلے میں رومانیت کا اطلاق کرنا شروع کیا۔ لیکن بطور اصطلاح اسے مادام ڈی سٹائل اور شیگل نے رائج کیا۔ یورپ میں رومانیت کا سب سے بڑا علمبردار روسو کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ سب سے پہلے روسونے فردکی آزادی پر زور دیا۔ چنانچہ روسو کی اس بات کو رومانیت کا مطلع کہاجاتا ہے۔ ” انسان آزاد پیدا ہوا ہے ، مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔“ روسو کے خیال میں انسان کی ناخوشی کا سب سے بڑا سبب تصنع اور بناوٹ ہے ، اور اس چیز کو وجود میں لانے کا سبب تہذیب و تمدن ہے۔ روسو کے خیالات نے اہل یورپ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ لیکن روسو کا میدان سیاست اور عمرانیات سے آگے نہیں بڑھا۔ جس کی وجہ سے ادب میں ان جدید رجحانات کی ابتداءبعد کے ادیبوں نے کی اور دھیرے دھیر اصول و ضوابط سے سرتابی کی روایت پیدا کی۔ اردو میں رومانیت اردو میں رومانیت کی ابتداءاگرچہ انیسویں صدی کے آخری حصے میں ہو چکی تھی تاہم اسے فروغ بےسویں صدی کے پہلی جنگ عظیم کے بعد حاصل ہوا۔ اردو میں اس کاآغاز سرسید تحریک کے ردعمل کے طور پر ہوا۔ سرسید عقلیت ، مادیت اور حقائق نگاری پربہت زیادہ زور دیا اور فرد کی زندگی کی جذباتی اور رومانی پہلوئوں کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ کچھ عرصہ تک یہ سکہ چلتا رہا لیکن بالآخر سرسید کے عقلی اور مقصدی ادب کے خلاف رومانوی ادیبوں نے شدید احتجاج کیا اور اس طرح شعر و ادب کی دنیا میں نئی راہوں کی نشاندہی کی۔اور اُس وقت کے حالات اور مغربی علوم کی آمد نے اس تحریک کو آگے بڑھنے میں مزید مدد دی۔ علی گڑھ تحریک کی عقلیت اور مادیت کے خلاف ردعمل میں سر فہرست محمد حسین آزاد ، میر ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر تھے۔ ان لوگوں نے ان اسالیب کو فروغ دینے کی کوشش کی جن میں ادیب کا تخیل جذبے کی جوئے تیز کے ساتھ چلتا رہے۔ لیکن آزاد کی رومانیت کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کی افتاد طبع کی نقیب ہے۔ جبکہ اس کے برعکس میر ناصر علی کا رومانی عمل شعوری نظرآتا ہے۔ میر ناصر علی نے سرسید احمد کان کے علمی و ادبی کارناموں پر نہ صرف تنقیدکی ہے بلکہ انہوں نے سرسید کی سنجیدہ نثر کا جامد خول توڑنے کے لئے انشاءپردازی کا شگفتہ اسلوب بھی مروج کرنے کی کوشش کی۔ اور انہوں نے سرسید کے مقابلے میں ”فسانہ ایام“، ”صدائے عام جسے رسالے نکالے۔ عہد سرسید میں شدید جذباتی رویے اور رومانی طرز احساس کی ایک اور مثال عبدالحلیم شرر ہیں۔ شرر نے مسلمانوں کے اجتماعی اضمحلال کے خلاف ردعمل پیش کیا اور اس شاندار ماضی میں آسودگی تلاش کی جس میں مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ہیبت و جبروت نے مشرق و مغرب کی طنابیں کھینچ رکھی تھیں۔ رسالہ مخزن سرعبدالقادر نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یعنی 1901 میں لاہور سے ماہنامہ مخزن جاری کیا۔ جسے اردو کی عملی و ادبی رسائل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی اشاعت سے نہ صرف یہ کہ رومانیت کی تحریک کو تقویت ملی بلکہ بعد میں آنے والی تحریکوں کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ اس رسالے میں اپنے دور کے تمام رومانیت پسندوں نے لکھا اور اس رسالے نے بہت سے ادبیوں کو اردو دان طبقے سے روشناس کرایا۔ حلقہ ارباب ذوق حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ بقول یونس جاوید: ” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔“ بقول سجاد باقر رضوی: ” حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔“ ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظرآتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بلعموم ایک دوسرے ی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بناءپر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنے شخصیت کی طرف متوجہ کیا ، ایک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلاواسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔ آغاز 29 اپریل 1939ءکو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی ، تابش صدیقی ، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ” مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ رکھ دیا گیا۔ اغراض و مقاصد قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ *1 اردو زبان کی ترویج و اشاعت *2 نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح *3 اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت *4 اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا ادوار:۔ *1 ابتداءسے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ءسے اگست 1930ءتک *2 میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجراءتک (اگست 1940ءسے دسمبر 1940ءتک *3 دسمبر 1940ءسے 1947ءمیں قیام پاکستان تک *4 1948ءسے مارچ 1967ءمیں حلقے کی تقسیم تک *5 مارچ 1967ءسے زمانہ حال 1976ءتک پہلا دور پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے دوسرا دور دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا تیسرادور تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہراتاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی حلقے نے زندگی کے ساتھ بلواستہ تعلق قائم کیا اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب “ اور ”ادب برائے زندگی “ کی بحث تھی اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت ، علامت نگاری ، وجودیت ، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادباءنے ہی اردو سے روشناس کرایا ۔ اس کے علاوہ تنقید کو اہمیت دی گئی اور نئی نظم کی تحریک پروان چڑھایا۔ چوتھا دور چوتھا دور 1947ءسے 1967ءتک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادباءکے احتساب ،جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلاواسبہ طور پر متاثر ہونے لگی ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادباءکی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادباءکا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہوگیا اور اس کے بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی “ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی “ کہلانے لگا۔ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی 1967ءسے 1975ءتک حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیداہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادباءجو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں افتخار جالب کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کردیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی ۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کرلی ۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دی اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کر وایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کواہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں (٢٧۔ ٥٧) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دی لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔ حلقہ اربابِ ذوق ادبی 1967ءسے 1975ءتک متذکرہ بالا تین سالوں میں ادبی حلقے نے پرانی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم ایک بڑے ”کل “ سے کٹ جانے کے بعد ذاتی رنجشوں کا جو سلسلہ شروع ہواتھا ادبی حلقہ ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا ۔ اس کوئی شک نہیں کہ ادبی حلقے کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئی چنانچہ ایک حلقے کے ادباءدوسرے حلقے میں بالعموم شریک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ادیب ایک حلقے میں غزل پڑھتا ہے اور اسی روز دوسرے حلقے میں نظم سنا آتا ہے شرکاءمحفل کے وقت کا نصف اول اےک حلقے میں اور نصف ثانی دورے حلقے میں صرف ہوتا ہے اور سربرآوردہ ادباءبلا تحصیص دونوں حلقوں کی صدارتیں قبول کر لیتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود اختلاف کہ باوجود دونوں حلقے ایک دوسرے کے ادبی حریف نہیں بن پائے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادب میں آگے بڑھنے اور نیا نقطہ پیدا کرنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکا۔ اس لیے ادبی حلقے کو سیاسی حلقے میں ممیز کرنا ممکن نہیں رہا اور اب یہ کہنا درست ہے کہ حلقے کی تقسیم سے ادب کوفائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا۔ اور ادباءنہ صرف اپنی ذاتی پہچان سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اس گرد آلود فضامیں ان کا ادب بھی گدلا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ حلقہ اربابِ ذوق میں ضابطے کی کاروائی تو اب بھی مکمل ہورہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اس فعال تحریک پر جمود اور یکسانیت کی کیفیت طاری ہے اور اب یہ کسی نئے مردراہ کی تلاش میں ہے۔ حلقہ اربا بِ ذوق کی شاعری شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا ۔ حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر ، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوںمیں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا ہے ۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن ، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق کا افسانہ حلقے کی تخلیقی جہتنے ارد و افسانے کو بھی متاثر کیا اور بیشتر ان جذبوں کی نشاندہی کو جو اظہار کی راہ نہیں پاتے اس ضمن میں حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے کما حقہ فائدہ اُٹھایا اور کہانی بیان کرنے کے بنیادی فریضے سے بالمعموم کوتاہی برتے بغیر پلاٹ کردار اور فضاءسے جدید افسانے کا تارو پود مرتب کیا۔ حلقے کے افسانہ نگاروں نے معاشرے کے داغ نمایاں کرنے کی بجائے ان غیر مرئی جذبات کو افسانے میں شا مل کیا ۔ جن سے احتراز ِ خیال پیدا ہوتی تھی ۔ اور بوقلمو فطرت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ سامنے آجاتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ حلقے میں داستان اور افسانے کو ہی اہمیت حاصل تھی ۔ تنقید کا اولین نشتر بھی افسانے پر ہی آزمایا گیا ۔ میراجی کی شمولیت سے اگرچہ شاعری کو زیادہ تقویت ملی تاہم افسانے کی صنف بھی محرومی توجہ نہیں ہوئی۔ حلقہ اربا ب ِذو ق کی تنقید حلقہ اربابِ ذوق نے تنقید میں یکسر مختلف رویہ قبول کیا۔ اور ابہام کے برعکس فن پارے کے بے رحم تجزیے کا رجحان پیدا کیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فن پارے کے حسن قبح کے فیصلے کو محض ذاتی تاثر کی میزان پر نہیں تولا فیصلے کے لیے جواز مہیا کرنا ضرور ی قرار دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب حلقے کی تاسیس عمل میں آئی تو ترقی پسند تحریک نے مقصدیت اور افادیت کو اتنی اہمیت دے دی تھی ، کہ فن پارے کی تنقید میں سب سے پہلے یہی معیار آزمایا جاتا ۔ یوں تنقید کے فنی اور جمالیاتی زاویوں سے یا تو اغماض برتا جاتا یاانھیں بالکل نظرانداز کر دیا جاتا۔ حلقے نے فن میں حسن کی دائمی قدروں کو اجاگر کرنے کی سعی کی تھی چنانچہ تنقید فن میں بھی یہی زاویہ حلقہ اربابِ ذوق کا امتیازی نشان بن گیا۔ اور اس دور میں جب ”ادب برائے زندگی “ کا نعرہ بلند ہوا تو حلقے نے ”ادب برائے ادب “کے نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے کی تنقید میں فن کا جمالیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہوا۔ اور تخلیقات سے ان زاویوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اور روح احتراض اور بالیدگی کی کیفیت محسوس کرتی تھی ۔ مجموعی جائزہ حلقے نے اپنے عہد کی مضبوط ترقی پسند تحریک کے خلاف نظریاتی محاربے کی شدید فضا بھی پیدا کی تاہم حلقے نے سیاست گری کے بجائے سیاست کے اثرات کو ادب کا موضوع بنایا ۔ اور کئی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کی پیش قدمی مستقبل کی طرف تھی اور ان میں اپنے عہد کا سماجی شعور بھی موجود تھا۔ ان زاویوں سے دیکھیے تو حلقہ اربابِ ذوق کی تخلیقی جہت نیم کلاسیکی اور نیم رومانی ہے اور یہ اتنی لچک دار ہے کہ اس میں مختلف نظریات باآسانی سما جاتے ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق تاحال ایک زندہ تحریک ہے اس کی تقسیم نے اس کے مرکزی کردار مزاج اور تخلیقی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ تاہم ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجوگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ فیصلے کرنا ممکن نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ بقولاحمد ندیم قاسمی ” حلقہ ارباب ذوق آغاز میں تو صرف ایک شہر اوروہاں کے چند اہل فہم تک محدود تھا ۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔“ بقول ڈاکٹر تاثیر : ”حلقہ اربابِ ذوق نے برسوں مسلسل انتھک کام سے ثابت کر دیا ہے کہ ادبی دائرہ میں ادبی اقدار کا احترام یہیں کیا جاتا ہے۔“ بقول قیوم نظر: ” ابتداءمیں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں باقاعدہ ”نقد و نظر“ کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا۔“ جدیدیت کی تحریک یا رحجان (Modernism) بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب کہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ، اس کے محاذی ایک اور تحریک پروان چڑھی ۔ اس کا نام توخیر بہت بعد میں '' جدیدیت '' یعنی (Modernism) پڑا ۔ لیکن ترقی پسندی کی مخالفت میں لاہور کے ''حلقہ ئ ارباب ِ ذوق '' والے اس میں پیش پیش تھے ۔ حلقہ ئ اربابِ ذوق میں ... میرا جی ، ن.م.راشد ، مختار صدیقی ، تصدق حسین خالد ، قیوم نظر وغیرہ شامل تھے ۔ اُن شعراء / ادباء کا یہ نظریہ تھا کہ ... ادب کو کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ انکشافِ ذات اور اپنی داخلی کیفیات کے اظہار کو نمایاں کرنا چاہئے۔ یہ لوگ علامت پسندی اور اشاریت پسندی کے قائل تھے ۔ جب تک ترقی پسندوں کا بول بالا تھا ، یہ تحریک پروان نہیں چڑھی ۔ لیکن 1960ء سے اِس رحجان کا احیاء (Revival) ہوا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی (مدیر ، ماہنامہ ''شب خون '' الہ آباد) نے اِس رحجان کو ''جدیدیت '' کا نام دیا ۔ ایک لحاظ سے یہ تحریک یا رحجان ، ترقی پسندوں کے ردّ عمل کا نتیجہ تھا ۔ بہت سے ترقی پسند ادیب و شاعر بھی منحرف ہو کر '' جدیدیت'' سے وابستہ ہو گئے ۔ انجمن ترقی اردو جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کےتحت ایک علمی شعبہ قائم کیاگیا ۔ جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہےتھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرھ حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیاگیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے ۔ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ 1936ء میں انجمن کو دلی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور 1938ء میں انجمن مع مولوی عبدالحق دلی آگئی۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں میں انجمن کے کتب خانے کی بیشتر کتابیں ضائع ہوگئیں۔ مولوی صاحب کراچی آگئے اور اکتوبر 1948ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ سر شیخ عبدالقادر انجمن کے صدر اور مولوی صاحب سیکرٹری تھے۔ 1950ء میں*مولوی صاحب صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں انجمن نے اردو کالج قائم کیا۔ جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ مولوی صاحب کے انتقال (1961) کے بعد جناب اختر حسین صدر اور جمیل الدین عالی اعزازی سیکرٹری بنائےگئے۔ انجمن کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ ابھی تک زندہ ہے ہندی اردو تنازع اور انجمن برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کرلیا جائے۔ ”اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔“ یک قلم خارج کردیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے. اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔ اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔ علمی و ادبی کتابوں کے تراجم انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ انجمن کے رسائل انجمن نے ۱۹۲۱ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ”اردو“ ، ۱۹۲۸ء میں رسالہ ”سائنس“ اور ۱۹۳۹ء میں اخبار ”ہماری زبان“ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ”سائنس“ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ”ہماری زبان“ ”اردو زبان“ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔ املا کے قاعدے انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔ قدیم کتابوں کی اشاعت انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔ شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔ اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ”اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان“ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے ۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہوگیا مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہوگیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کرلیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔ بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبدالقادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید ملّت نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا... سر شیخ عبدالقادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدررہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔ بستان دہلی اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر “ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ءسے لے کر 1819ءتک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کردیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی ۔ دوسری طرف مرہٹے ، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی ۔اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں ہماری اردو شاعری پروان چڑھی ۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی ، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ خصوصیات زبان میں فارسیت:۔ دبستا ن دہلی کے شعراءکے ہاں فارسیت کا بہت غلبہ تھا کیونکہ شعرائے دہلی فارسی کی شعری روایت سے متاثر تھے اور ان پر فارسی شعراءکا گہرا اثر تھا۔ ایران سے جو شعراءآتے تھے ان میں سے اکثر یہاں ہی رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ، خسرو ، حسن ، عرفی ،نظیری ، طالب ، صائب اور بیدل وغیرہ مختلف ادوار میں یہاں رہے۔ اس کے علاوہ یہاں فارسی شعراءکی زبا ن تھی ۔ نیز یہاں کے شعرا ءاردو اور فارسی زبانوں میں دسترس رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے۔ اس طرح بہت سے شعراء نے فارسی شعراءسعدی ، وحافظ کا ترجمہ کیا۔ اور خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ ہے۔ جذبات عشق کا اظہار:۔ ٍ دبستان دہلی کے شعراءکے ہاں جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ زور ہے۔ دبستان دہلی کے شعراءنے عشق کے جذبے کو اولیت دی ۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن شعرائے دہلی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور طرز ادا خوب تر ہو بلکہ ان کی کوشش تھی کہ شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے ۔ اس لئے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہے۔ دہلی کے کچھ شعراءعشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی سے سرشار ہوئے ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے ۔ جبکہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے۔ چنانچہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز اور تڑ پ موجود ہے۔ جبکہ کچھ لوگ نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابولہوسی میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں مدارج موجود ہیں۔مثلاً درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ۔ قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں عشق مجازی:۔ عشق کا دوسرا انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہوگئے ۔ یہ رنگ میرتقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا ۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور گہرائی تھی جس نے ان کی شاعری کوحیات جاوداں عطا کی۔ عشق کا یہ تیکھا انداز دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔ جن میں دہلی کے تمام شعراءنے بڑی خوبصورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔ پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے حزن و یاس :۔ دبستان دہلی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان ہے۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و ناامیدی کے جذبات بکثرت موجود ہیں۔ شاعرخواہ کسی موضوع پر بات کرے رنج و الم کا ذکرضرور آجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سارے دور میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔ زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظرآتا ہے۔ خارج میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے ہیں۔ چنانچہ فنا کا احساس بہت تیز ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر ، لٹے ہوئے نگر اور ویران گزر گاہیں جا بجا موجود ہیں۔ خصوصاً میر و سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چنانچہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں: کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسم کیا دل کی ویرانی کا کیا مذکور یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا اس حزن و یاس کی فضاءکے بارے میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ” ظاہر ہے دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و گفتگو ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مہجوری و ناکامی سے ہے۔“ تصوف:۔ واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراءکا دوسرا محبوب ترین موضوع تصوف ہے۔ چونکہ ابتداءمیں اردو شاعری پر فارسی شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے اردو شعراءنے غیرشعوری طور پر فارسی شاعری کے اسالیب، سانچے ، اور موضوعات قبول کر لئے۔ دوسری طرف اس موضوع کو اس لئے بھی مقبولیت ملی کہ کہ تصوف میں بھی قناعت ، صبر و توکل اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا کیونکہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے جن کی بناءپر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل ہو رہتے تھے ۔ اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ان میں کچھ تو صوفی شعراءتھے لیکن زیادہ تر شعراءنے محض رسمی طور پر تصوف کے مضامین کو نظم کیا۔ چنانچہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تصوف کے مضامین نظرآتے ہیں۔ تصوف کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تصورات و اقدار تھے جو ہندوستان کی فضاءمیں رچے بسے ہوئے تھے ۔ جن کی بدولت انہوں نے تصوف کو موضوع بنایا۔ مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل بجے ہیں کوچ کا ہر دم نقارہ شاہ حاتم اسے کو ن دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا رمزیت اور اشاریت:۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں بڑی وسعت پیدا ہوئی چنانچہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ، ” دہلی میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور گہرائی پیدا کی اور اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھا۔ تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجہ دیا اور ابتذال سے دور رکھا۔ “ مسائل تصوف نے اردو غزل کو رمز و کنایہ کی زبان دی، پیر مغاں ، گل ، بلبل ، چمن ، شمع ، پروانہ ، میکدہ ، اسی طرح کی اور بہت سی علامتیں تصوف کے راستے اردو شاعری میں داخل ہوئیں ۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی ۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے شعراءنے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔ ذیل کے اشعار دیکھئے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔ ساقی ہے اک تبسم گل ، فرصت بہار ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک داخلیت:۔ دبستان دہلی کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو داخلیت ہے۔ داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے دل کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی شدید داخلیت میں ڈبو کر پیش کرتا ہے۔ یہ داخلیت دہلی کے ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ شعرائے دہلی کے ہاں خارجیت بالکل نہیں ہے۔ خارجیت بھی ہے۔ لیکن داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان مصائب کا بیان شعرائے دہلی نے نہایت خوش اسلوبی سے کیاہے۔ پاس ناموس عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا واقعیت و صداقت:۔ دبستان دہلی کی ایک خصوصیت واقعیت و صداقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شعراءکے ہاں مبالغہ وغیرہ کم ہے۔ ان شعراءنے مبالغہ سے زیادہ کام نہیں لیا اگرچہ مبالغہ کا استعمال شاعری میں برا نہیں ہے لیکن جس بھی کسی چیز کا استعمال حد سے تجاوز کر جائے تو پھر اُسے مناسب و موزوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی طرح حد سے زیادہ مبالغہ شاعری کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ شعراءدہلی کے ہاں اعتدال پایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ صداقت کے اظہار کے لئے پر تکلف زبان کو بھی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ ہر گھڑی کان میں و ہ کہتا ہے کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہو سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے سادگی:۔ شعرائے دہلی کے ہاں زبان میں بھی سادگی ، صفائی اور شستگی پائی جاتی ہے۔ شعرائے دہلی نے جس طرح مضامین میں واقعیت و صداقت کو مدنظر رکھا ہے۔ اسی طرح زبان بھی سادہ اور عام فہم استعمال کی ہے۔ اگرچہ ان شعراءنے صنعتوں کا استعمال کیا ہے لیکن وہ صنعت برائے صنعت کے لئے نہیں ہے۔ اس کے بجائے ان شعراءنے معنوی حسن کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تشبیہ اور استعارے کا استعمال حد سے آگے نہیں بڑھتا۔ میراُن نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے اختصار:۔ شعرائے دہلی کے کلام میں جہاں زبان میں سلاست و روانی کا عنصر نمایاں ہے وہاں اختصار بھی ہے۔ اس دور میں دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل سب سے زیادہ نمایاں رہی ہے۔ اور غزل کی شاعری اختصار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس میں نظم کی طرح تفصیل نہیں ہوتی بلکہ بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے۔ اس لئے ان شعراءکے ہاں اختصار ملتا ہے۔ نیز غزل کا مخصوص ایمائی رنگ بھی موجود ہے۔ یہاں کے شعراءاپنے دلی جذبات و احساسات کو جو ں کا توں بڑی فنکاری سے پردے ہی پردے میں پیش کر دیتے ہیں۔ اسی با ت کا ذکر کرتے ہوئے محمد حسن آزاد لکھتے ہیں کہ : ان بزرگوں کے کلام میں تکلف نہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے خیالات دل پر گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ اس واسطے اشعار صاف اور بے تکلف ہیں۔ “ ہم نشیں ذکر یار کر کچھ آج اس حکایت سے جی بہلتا ہے دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا بے مجموعی جائزہ:۔ دہلویت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی لکھے ہیں کہ” دہلویت کا ایک خاص افتاد ذہنی یا مزاج شعری کا نام نہیں ہے جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دہلی کا شاعر غم ِ روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہواہے۔ اسی لئے اس کے کلام میں دونوں کی کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصور عطا کیا ۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں۔ “ دبستان لکھنو لکھنویت سے مراد شعرو ادب میں وہ رنگ ہے جو لکھنو کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا۔ اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنو مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اور وہ دکن اور دہلی تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا ۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گر م ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنو میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔ پس منظر:۔ سال1707 اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لئے خود لڑنے لگے ۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں ، جاٹوں اور نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔ سال1722ءمیں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا ۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لئے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی ۔ صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوششیں کیں ۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنو میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔ دولت کی فروانی ، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہوگئے ۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بناءپر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امراءنے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آبائو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔ سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لئے بھیجا جانے لگا۔ شعرو ادب پر اثرات:۔ عیش و نشاط ، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بدامنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنو میں اکھٹا ہونا شروع ہوگئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کے بجائے لکھنو میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے ۔ امرا ءروساءاور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ابتداءمیں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی ۔ مصحفی اور انشاءکے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنو کی خارجیت اور رعایت لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنو کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنو کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔ خصوصیات:۔ اکثر و بیشتر نقادوں نے دبستان لکھنوکی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دلی کے مقابلے میں لکھنو کی شاعر ی میںخارجیت کا عنصر نمایاں ہے۔ واردات قلبی اور جذبات و احساسات کی ترجمانی اور بیان کے بجائے شعرائے لکھنوکا زیادہ زور محبوب کے لوازم ظاہری اور متعلقات خارجی کے بیان پر ہے۔ دوسری بات یہ کہ لکھنوی شاعری کا دوسرا اہم عنصر نسائیت ہے۔ اس کے علاوہ معاملہ بندی، رعائیت لفظی ، صنعت گری اور تکلفات پر زیادہ زور ہے ذیل میں ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔ خارجیت اور بیروں بینی:۔ دلی کی شاعری کے مقابلے میں لکھنو کی شاعری فکر اور فلسفے سے بالکل خالی ہے۔ نتیجتاً اس میں گہرائی مفقود ہے۔ اور ظاہرداری پر زور ہے۔ دروں بینی موجود نہیں۔ سوز و گداز کی شدید کمی ہے۔ خارجیت اور بیروں بینی کے مختلف مظاہر البتہ نمایاں ہیں لکھنو کی شاعری میں واردات قلبی کے بجائے سراپا نگاری پر زور ہے۔ ان کی شعری خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے سید وقار عظیم لکھتے ہیں، ” لکھنویت تکلف اور تصنع کا دوسرا نام ہے۔ جہاں شاعر محسوسات اور واردات کی سچی دنیا کو چھوڑ کر خیال کی بنی ہوئی رنگین فکر کی پیدا کی ہوئی پر پیج راہوں پر چل کر خوش ہوتا ہے۔ اس کاسبب یہ بتایا گیا ہے۔ کہ لکھنو کی ساری زندگی میں ظاہر پر اس قدر زور تھا کہ شعراءکو دروں بینی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ان کی نظروں کے سامنے اتنے مناظر تھے کہ ان کے دیکھنے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔ ایسے میں دل کی کھڑی کھول کرمیر کی طرح اپنی ذات کے اندر کون جھانکتا۔ جب انھوں عیش و عشرت اور آرائش و زیبائش کی محفلوں سے فرصت نہیں تھی مضمون آفرینی:۔ دبستان لکھنو کی شاعری کی دوسری نمایاں خصوصیت مضمون آفرینی ہے۔ مضمون آفرینی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر روایتی مضامین میں سے نئے مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب پہلو تلا ش کر لیتا ہے۔ ایسے مضامین کی بنیاد جذبے کے بجائے تخیل یا واہمے پر ہوتی ہے۔ شعراءلکھنو نے اس میدا ن میں بھی اپنی مہارت اور کمال دکھانے کا بھر پور مظاہر ہ کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں مندرجہ زیل ہیں۔ گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر معاملہ بندی:۔ سراپا نگاری اور مضمون آفرینی کے علاوہ دبستان لکھنو کی شاعری کی ایک اور خصوصیت جس کی نشان دہی نقادوں نے کی ہے وہ معاملہ بندی ہے۔ چونکہ دلی کی تباہی کے وقت لکھنو پر امن تھا۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ لوگ خوشحال اور فارغ البال تھے۔ بادشاہ وقت امراء، وزراءاور عوام الناس تک سب عیش و عشرت میں مبتلا تھے۔ خصوصاً طوائف کو اس ماحول میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ ماحول کے اثرات شاعری پر بھی پڑے جس کی وجہ سے بقول ڈاکٹر ابوللیث صدیقی جذبات کی پاکیزگی اور بیان کی متانت جو دہلوی شاعری کا امتیازی نشان تھی یہاں عنقا ہوگئی۔ اس کی جگہ ایک نئے فن نے لے لی جس کا نام معاملہ بندی ہے۔ جس میں عاشق اور معشوق کے درمیان پیش آنے والے واقعات پردہ دروں، کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسے اشعار خال خال دہلوی شعراءکے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس فن میں جرات پیش پیش تھے جو دلی سے آئے تھے۔ لیکن لکھنو کا ماحول ان کو بہت راس آیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ لکھنو کے دیگر شعراءنے جی بھر کر اپنے پست جذبات کو نظم کیا۔ ان کی گل افشانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں، کچھ اشارہ جوکیا ہم نے ملاقات کے وقت ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت رعایت لفظی:۔ دبستان لکھنو کی ایک اور خصوصیت رعایت لفظی بتائی جاتی ہے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں۔ ” لکھنو کا معاشرہ خوش مزاج، مجلس آراءاور فارغ البال لوگوں کا معاشرہ تھا۔ مجلس زندگی کی جان لفظی رعایتیں ہوتی ہیں۔ مجلوں میں مقبول وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان پر پوری قدرت ہو اور لفظ کا لفظ سے تعلق ، اور لفظ کا معنی سے رشتہ پوری طرح سمجھتے ہوں ۔ لفظی رعایتیں محفل میں تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں، اور طنز کو گوارا بناتی ہیں۔ لکھنو میں لفظی رعایتوں کا از حد شوق تھا۔ خواص و عوام دونوں اس کے بہت شائق تھے ۔ روساءاور امراءتک بندیاں کرنے والوں کو باقاعدہ ملازم رکھا کرتے تھے۔ ان ہی اسباب کی بناءپر لکھنوی شاعری میں رعایت لفظی کی بہتات ہے اور لفظی رعایتیں اکثر مفہو م پر غالب آجاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات محض لفظی رعایت کو منظوم کرنے کے لئے شعر کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر قبر کے اوپر لگایا نیم کا اس نے درخت بعد مرنے کے میری توقیر آدھی رہ گئی طویل غزلیں:۔ لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں بات طویل غزلیں ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتداءجرات مصحفی نے کی جو دلی دبستا ن سے تعلق رکھتے تھے۔ جو دلی کی تباہی کے بعد لکھنو جا بسے تھے۔ لیکن لکھنوی شعراءنے اس کو زیادہ پھیلایا اور بڑھایا اور اکثر لکھنوی شعراءکے ہاں طویل غزلیں بلکہ دو غزلہ ، اور سہ غزلہ کے نمونے ملتے ہیں۔اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے۔ کہ لکھنو کے اس دور میں پرگوئی اور بدیہہ گوئی کو فن قرار دے دیا گیا تھا۔ نیز لوگ قافیہ پیمائی کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے طویل غزلیںبھی لکھی جانے لگیں چنانچہ ٥٢۔٠٣١ اشعار پر مشتمل غزلیں تو اکثر ملتی ہیں۔ بلکہ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ طویل غزلیں بھی لکھی جاتی تھیں۔ قافیہ پیمائی:۔ طویل غزل سے غزل کو فائدے کے بجائے یہ نقصان ہوا کہ بھرتی کے اشعار غزل میں کثرت سے شامل ہونے لگے۔ شعراءنے زور کلام دکھانے کے لئے لمبی ردیفیں اختیار کرنی شروع کر دیں جس سے اردو غزل میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج شروع ہوا۔ معمولی قافیوں اور ردیفوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا نے لگا ۔ اس نے قافیہ پیمائی کا رواج شروع ہوا۔ ذیل میں بے میل ردیفوں سے قافیوں کی چند مثالیں درج ہیں۔ انتہائی لاغری سے جب نظرآیا نہ میں ہنس کر کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے بات طویل غزلوں اور ، بے میل ردیفوں اور قافیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شعراءلکھنو نے اپنی قادر الکلامی اور استادی کا ثبوت دینے کے لئے سنگلاخ زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ پیچ دار تشبیہ اور استعارے کا استعمال:۔ اگرچہ تشبیہ اور استعارے کا استعمال ہر شاعر کرتا ہے لیکن یہ چیز اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب حد اعتدال کے اندر ہو۔ شعراءدلی کے ہاں بھی اس کا استعمال ہوا لیکن لکھنو والوں نے اپنی رنگین مزاجی کی بدولت تشبیہوں کا خوب استعمال کیا اور اور ان میں بہت اضافہ کیا۔ محسن کاکوروی ، میرانیس ، نسیم ، دبیر ، نے پرکیف ، عالمانہ اور خوبصورت تشبیہیں برتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شعراءصرف تشبیہ برائے تشبیہ بھی لے آئے ہیں جس سے کلام بے لطف اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔ سبزہ ہے کنارے آب جو پر یاخضر ہے مستعد وضو پر محو تکبر فاختہ ہے قد و قامت سر و دلربا ہے نسائیت:۔ ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھنوی دبستان کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہر زمامے ہر قصہ اور ہر زبان میں عورت شاعری کا بڑا اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن لکھنو کی سوسائٹی میں عورت کو اہم مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اس نے ادب پر بھی گہرا اثرا ڈالا۔ اگر یہ عورتیں پاک دامن اور عفت ماب ہوتیں تو سوسائٹی اور ادب دنوں پر ان کا صحت مند اثر پڑتا لیکن یہ عورتیں بازاری تھیں ۔ جو صرف نفس حیوانی کو مسسل کرتی تھیں ۔ جبکہ دوسری طرف عیش و عشرت اور فراغت نے مردوں کو مردانہ خصائل سے محروم کرکے ان کے مردانہ جذبات و خیالات کو کمزور کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے جذبات خیالات اور زبان پر نسائیت غالب آگئی ۔ چنانچہ ریختہ کے جواب میں ریختی تصنیف ہوئی۔ اس کا سہرا عام طور پر سعادت یا ر خان رنگین کے سر باندھا جاتا ہے۔ رنگین کے بعد انشاءاور دوسرے شعراءنے بھی اسے پروان چڑھایا ۔ ان شعراءکے ہاں ریختی کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کے خاص محاوروں میں جس طرح ان لوگوں نے نظم کیا ہے وہ لکھنو کی شاعری اور سوسائٹی کے دامن پر نہ مٹنے والا داغ بن کر رہ گیا ہے۔ سوز و گداز:۔ اس ساری بحث سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ لکھنوی شعراءکے ہاں اعلی درجے کی ایسی شاعری موجود نہیں جو ان کے سوز و گداز جذبات اور احساسات اور واردات قلبیہ کی ترجمان ہو ۔ تمام نقادوں نے اس بات کی تائید کی ہے بلکہ عذلیب شادنی جنہوں نے لکھنوی شاعری کے خراب پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ نمایاںکرکے پیش کیا ہے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شعرائے لکھنوکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو پڑھنے والے کے دل پر گہرااثر چھوڑتے ہیں۔ ایسے نمونے ناسخ اور آتش کے علاوہ امانت اور رند وغیرہ کے ہاں سب سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہاں اس بات کے ثبوت میں مختلف شعراءکا کلام سے کچھ مثالیں رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل مجموعی جائزہ:۔ اردو ادب میں دونوں دبستانوں کی اپنے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔ دبستان لکھنو نے موضوعات کے بجائے زبان کے حوالے سے اردو ادب کی بہت خدمت کی اور ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک نے اردو زبان کو قواعد و ضوابط کے حوالے سے بہت زیادہ ترقی دی ۔ جبکہ دبستان ِ لکھنو کا اثر دہلی کے آخری دور کے شعراءغالب ، مومن ، ذوق پر بھی نمایاں ہے۔ ”اردو ادب کی نئی تاریخ کی ضرورت“ شمس الرحمٰن فاروقی معروف نقاد اور محقق شمس الرحمن فاروقی نے خدا بخش لائبریری میں ”اردو ادب کی نئی تاریخ کی ضرورت“ کے موضوع پر اپنا عالمانہ خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اردو میں ادبی تاریخ کی ترتیب کی کوئی اعلیٰ اور صالح روایت موجود نہیں رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوشخص ڈیڑھ سو برس کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو، وہی اردو ادب کی غیر جانب درانہ تاریخ لکھ سکتا ہے -انہوں نے اپنے لکچر کے آغاز میں کہا کہ پروفیسر رالف رسل نے ادب کی تاریخ لکھنے کے لیے تین نکات کی ضرورت بتائی ہے۔ پہلا انتخاب دوسرا اختصار اور تیسرا تاریخی اور سماجی پس منظر۔ لیکن وہ ان تینوں نکات کو رد کرتے ہیں کیوں کہ یہ کسی طرح بھی ادبی تاریخ لکھنے میں معاون نہیں ہو سکتے۔ اس لحاظ سے رسل صاحب نے جو قاعدے کلیے وضح کیے ہیں ان کا اردو ادب کی تاریخ تحریر کرنے پر اطلاق نہیں ہو تا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہم فورٹ و لیم کی کتابوں کو فخر سے سر پر اٹھائے پھرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتابیں انگریز افسروں کو اردو سکھانے کے لیے لکھوائی گئی تھیں۔ میر امن کی باغ و بہار کا ناقدین بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اس کی ادبی حیثیت مشکو ک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ رفیع الدین نے سنہ 1800ءمیں اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میں قرآن کا ہندی میں ترجمہ کر رہا ہوں تو در اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو کا اولین نام ہندی، ہندوی یا ریختہ تھا۔ ہندی زبان کا اس وقت تک کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اردو کی بہت ہی پختہ ادبی روایات قائم ہو چکی تھیں جسے ہندی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں نے اس نام کو ترک کر دیا اس کے ساتھ ساتھ اس ورثے کو بھی چھوڑ دیاگیا۔ اس زمانے میں بنارس سے لے کر مرشد آباد تک ہندی یا ہندوی میں لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ سورت میں تو چودھویں صدی میں اسی زبان یعنی ہندی، ہندوی یا اردو کا بول بالا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کی کہ اردو کبھی بھی سرکاری زبان رہی ہے یا سرکار دربار سے اس کی سرپرستی ہو تی رہی ہے کیوں کہ اس زمانے کے جتنے بھی دربار تھے سب کی زبان فارسی تھی۔ صرف ٹیپو سلطان نے اردو کو سرکاری زبان بنایا تھا لیکن اس کا عرصہ 8-9سال سے زیادہ نہیں رہا۔ جناب فاروقی نے کہا کہ سب سے بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اردو میں ادبی تاریخ لکھنے کی روایت کی جو بنیاد رکھی گئی وہی کج تھی۔ اس سلسلہ کی پہلی کتاب محمد حسین آزاد کی ”آب حیات“ ہے لیکن ان کے ذہن میں یہ واضح ہی نہیں تھا کہ و ہ تذکرہ لکھ رہے ہیں یا تاریخ۔جب انہوں نے خود ہی لکھ دیا کہ وہ نام ور شعرا کے حالات لکھ رہے ہیں توا س سے ان کے ذہنی تعصبات صاف ظاہر ہو رہے ہیں کہ وہ جنہیں نام ور مان رہے ہیں وہی بڑے شاعر ہیں، باقی شعرا کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا بھی ہے۔ قائم چاند پوری جیسے باکمال شاعر کا ذکر ایک سطر میں حاشیہ میں کیا گیا ہے۔ ” آب حیات “ کی اس خامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد حسین آزاد کے سامنے ایک ایجنڈا تھا اور انہوں نے اسی ایجنڈے کے تحت وہ کتاب لکھی، اس طرح سے غلط روایت کی بنیاد پڑ گئی۔ آب حیات کی اس خامی نے اردو ادب کی تاریخ کو مسخ کر دیا۔ آزاد کے ذہن میں تعصبات بہت ہیں، انہوں نے اردو کے ہندو شعرا کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ شاعرات کی بھی اردو میں بڑی مضبوط بنیاد تھی، مگر آزاد نے کسی شاعرہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ فاروقی نے پروفیسر شارب ردولوی کی ادبی تاریخ کے اصول و نظریات کا بھی ذکر کیا۔ لیکن اس کے بارے میں بھی انہوں نے بتایا کہ ایک طرح کی تدریسی کتاب ہے اور اس میں ادب کی تاریخ لکھنے کے اصول واضح نہیں کیے گئے ہیں اور یہ اس کتاب کی بڑی خامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کی کتاب بھی صرف تدریسی کتاب ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ التبہ انہوں نے ڈاکٹر گیان چندر جین کی کتاب اردو کی ادبی تاریخیں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر جین نے اردو کی ادبی تاریخوں کا تفصیل سے جائزہ تو لیا ہے اور ان کی خامیاں بھی بیان کی ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا ہے کہ ادبی تاریخ لکھنے کا فلسفہ کیا ہے۔ اس کے واضح نکات کیا ہیں اور اس کی سائنسی تشکیل کس طرح سے کی جانی چاہیئے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی تاریخ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تاریخی حوالے اور اصل مواد بھی پیش کیا گیا ہے، اس لیے اس کی ادبی اور تاریخی حیثیت ہے لیکن جمیل جالبی بھی اپنے ذہنی تحفظات کو بالائے طاق نہیں رکھ سکے ہیں۔ ہمارے ادبا اور ناقدین کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ وہ ذہن میں یہ مفروضہ رکھ کر چلتے ہیں کہ اردو میں بس دو ہی دبستان تھے، ایک لکھنئو اور دوسرا دہلی۔ حالانکہ جس زمانے کے ان دو دبستانوں کا ذکر کیا جاتا ہے اس وقت دکن میں ادب کی تخلیق ہو رہی تھی، بنگال کے مرشدآباد میں بھی اردو لکھنے پڑھنے والے تھے، عظیم آباد میں بھی اور گجرات کے سورت میں بھی اور ان سب کا کتابوں میں تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ اس کے باوجود صرف دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کا ذکر کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ بد قسمتی سے ادبی تاریخیں لکھنے والوں کے ذہن پر آج بھی لکھنویت یا دہلویت سوار ہے، اسی لیے وہ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تاریخ نہیں لکھ پاتے۔ اس کے لیے انہوں نے جامعات کے اردو اساتذہ کو ذمہ دار قرار دیا جو درسیات کی کتابوں تک محدود رہتے ہیں اور یہ درسی کتابیں اردو ادب کی تاریخ کو مسخ کر تی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اب تک ہمارے یہاں ادبی تاریخ لکھنے کی صالح روایت نہیں بن سکی ہے، جو ایک بڑا المیہ ہے۔ 1. उर्दु रसलमूत खत की बुनियाद है। - फारसी
2. उर्दु अदब की तारीख से मुतालिक पहला नजरिया पेष किया - मौलाना मौहम्मद हुसेैन आजाद 3. ग्रियेसन के मुतालिक आर्य अकवाम का हकीकी घर है। - हिन्द का दरमियानी इलाका 4. ग्रियेसन के मुतालिक उर्द इब्तेदा हुई - मूगल सलातिन के शाही फौजी बाजारो से 5. मगरीबी हिन्द की मौरसी आला है - खडी बोैंली 6. आपभ्रंष के मायने है -बगैर कायदे की जुबान 7. ग्रियेसन के मुतालिक हिन्द की शाखाये है। - 5 8. सैययद सुलेमान नदवी ने उर्दु का आागाज माना है - वादिये सिन्ध से 9. मेहमूद सिरानी ने उर्दू का आगाज माना है - पंजाब से 10. इतनी बात हर शख्स जानता है कि उर्दु ब्रज भाषा से निकली है यह दावा किसने किया - मौहम्मद हुसेैन आजाद 11. लैग्विस्कि सर्वे आॅफ इण्डिया के मुस्सनिक है -ग्रियेसन 12. सबसे पहले युरोप जुबान के जिस मकलुफ ने हिन्दुस्तानी जुबान की तारीख लिखी -गारसा-डि-तासी 13. उर्दु जु़बान का इर्तका देहली के अतराब दोआब मे हुआ - महिउद्दीन कादरी जोर 14. शौकत सबजवारी के मुतालिक उर्दु की इब्तदा की बुनियाद है - पाली 15. मसूद हुसैन ने उर्दु को किस जुबान का निखरा हुआ, सवरा हुआ, तरक्की आपता रूप माना है -खडी बोली 16. एहतेषाम हुसेन उर्दु के मुतालिक अपने नजरियात किस किताब मे पेष की है - हिन्दुस्तानी लिसानियत का खाका 17. उर्दु नस्ल की पहली किताब है - मिराजुल आषिकीन 18. मिराजुल आषिकीन के मुस्सनिफ है - ख्वाजा बंदानवाज गेसुदराज 19. उर्दु पहली बार कुवाईद मुर्रतब की थी - सर सैययद ने 20. सैययद ईषा ने जिस किताब मे उर्दु कुवाइद का बयान किया है - दरियाए लताफत 21. उर्दु ने पहली बार खतुत निगारी किसने की - गुलाब गोस ने 22. उर्दु की पहली मुक्मबल लुगत है -फरहंग-ऐ आसफिया 1882 मे मुर्रतब हुई थी 23. उर्दु की सबसे कदीम दास्तान - किस्सा मेहर अफरोज दिलबर 24. सबरस का सीनाऐ तसनीफ है -1609 ई. 1075 हिज्ररी 25. सबरस के मुस्सनीफ है - मुल्ला वजी 26. बागोबहार का सीनाऐ तसनीफ और मुस्सनीफ है -1803 मीर अम्मन देहलवी 27. बागोबहार का माखुज है - फारसी किस्सा चाहर र्दुवेस 28. नौ तरजे मुरस्सा के मुस्सनीफ है - अताहुसेन तहसीन 29. तोता कहानी के मुस्सनीफ है - हेैदर बख्श हैदरी 30. फसाना ऐ अजाईब किसकी है - रजब अली बैग सुरूर 31. रानी केतकी की कहानी के मुस्सनीफ है -सैययद ईंषा अल्लाह खां ईंषा 32. किस्सा अलीफ लेैला का तरजुमा पहली बार उर्दु मे किया था - साकिर अली ने 33. बुस्ताने ख्याल के मुस्सनीफ है - मीर तककी ख्याल 34. नौवल किस जुबान का लफ्ज है -पजंसपंद 35. उर्दु का सबसे पहला नौवेल माना जाता है - मीरातुल उरूस 36. उर्दु के पहले नाविल निगार माने जाते है -मौलवी नजीर अहमद 37. मीरातुल उरूस का सीनाऐ तफनीस है - 1860 38. इबलुल वक्त के मुस्सनीफ है - नजीर अहमद 39. कलीम नजीर अहमद के किस नोवेल का किरदार है - तौबतुल निस्हा 40. मजालिस उल निस्हा नोवेल के मुनस्सीफ हेै - अल्ताफ हुसैन हाली 1877 41. फसाना ऐ आजाद के मुनस्सनीफ है - रतन नाथ सरषार 42. शउरी तौर पर उर्दु मे नोवेल निगारी का आगाज किया - अब्दुल हलीम शरर ने 43. दिलचस्प के मुस्सनीफ है - अब्दुल हलीम शरर ने 44. उमराव जान अदा नोवेल किसका है - मिर्जा हादी रूसवहा 45. जदीब नोविल निगार है - मूूंषी पे्रमचन्द 46. मूंषी प्रेमचन्द के आखिरी नोविल का नाम - गोदान 47. मूंषी प्रेमचन्द कुल कितने नोविल लिखे - 11 48. गे्रज नोविल के मुनस्सनीफ है - अरिज अहमद 49. टेडी लकीर के मुनस्सनीफ है - इस्मत चुगतई 50. मासूमा और जिद्दी किसके नोविल का किरदार है - इस्मत चुगताई 51. समन अस्मत के किस नोविल का किरदार है -टेडी लकीर 52. शकिस्त के मुनस्सनीफ है - कृष्ण चन्द्र 53. एक गधे की सरगदीस्त ओर एक गधा नफे में किसके नाविल है -’ कृष्ण चन्द्र 54. कृष्ण के कुल कितने नोविल है - 29 55. एक चादर मैली सी के मुनसनीफ है - राजेन्द्र सिंह बेदी 56. कुरतुल ऐन हेदर को उनके किस नाविल पर साहित्य एकेडमी अवाॅर्ड मिला - आग का दरिया 57. मेरे भी सनम खाने और सफेद गम औ दिल किसके नोविल है - कुरतुल ऐन हेदर 58. जब खेत जागे नोविल है - कृष्णचन्द्र 59. चांद बीबी के मुनसनीफ है - कुरतुल ऐन हेदर 60. शाम अवध के मुनसनीफ है - डाॅ हुसैन फारूकी 61. आंगन नोविल के मुनसनीफ है - खदीजा मसतुल 62. उदास लम्हे किसने लिखा - अब्दुल्ला हुसैन 63. आबला पा के मुनसनीफ है - रजिया फसी अहमद 64. उर्दु में तमषिली अफसानो का आगाज हुआ - 19 सदी में 65. तमषिली निगारी के लिए किस अफसाने का नाम लिया जाता है - निरंगे ख्याल 66. निरंगे ख्याल के मुनसनीफ है - मौ0 हुसैन आजाद 67. मुख्तर अफसाने का आगाज हुआ - 19वीं सदी में 68. प्रेमचन्द के अफसाने के मजमुऐ का नाम- वारदात 69. पे्रमचन्द के पहले अफसाने का नाम - दुनिया का सबसे अनमोल रत्न 70. अफसाना निगारी का बादषाह कहा जाता है - प्रेमचन्द 71. झेलम में नाव पर किसका अफसाना है - कृष्णचन्द 72. नजारे किसके अफसाने का मुजमुआ है -कृष्णचन्द 73. हतक अफसाने के मुनसनीफ है - सआदत हुसैन मिन्टो 74. गरम गोष्त के मुनसनीफ है - राजेन्द्र सिंह बेदी 75. डायन किसका अफसाना है - इस्मत चुगताई 76. नासुर किसके अफसानो का मुजमुआ है - रतननाथ अषक 77. ड्रामा किस जुबान का लफज हे - अग्रेंजी 78. ड्रामा को नकाली किसने कहा है - अरस्तु 79. उर्दु का पहला ड्रामा है - इन्द्र सभा (अमानत) 80. उर्दु ड्रामे का शकीन किसे कहा जाता है - आगा हषर कष्मीरी 81. खुबसुरत बला ड्रामा किसका है - आगा हषर कष्मीरी 82. इन्द्र सभा लिखा गया - 1270 हिज्ररी में 83. अमानत का पुरा नाम है - आगा हसन अमानत 84. आगा हसन के ड्रामो की खुबी है - मुनाजिम की उमदा तरतीब 85. पर्दा ए गफलत के मुनसनीफ है - डाॅ0 आबिद हुसैन 86. अनारकली का सीना ऐ तसनीफ है - 1832 87. अनारकली में अस्मीया किरदार है - अकबर 88. अनारकली के मुनसनीफ है -इमतियाज अली ताज 89. खाना जंगी ड्रामा लिखा - मोै0 मुजीद ने 90. सनहाक ड्रामा के मुनसनीफ है - मौ0 हुसेन 91. ड्रामे की इप्तीदा हुइ्र्र ’ - युनान 92. सबसे पहले ड्रामे के उसूल र्मुरतब किये - प्लेटो 93. अरस्तु के नजदीक ड्रामे की अजजाये है - 6 94. उर्दु मकतुब निगारी का आगाज किया - गुलाम ष्गोष बैखबर 95. खतुत को मरतबाय अदब तक पहुचांने का असल सेहरा किसके सर है - मिर्जा गालिब 96. सहफिया मौहब्बत किसके खतुत का मजमुआ है -महेन्दी अफादी 97. गुबार ऐ खातिर क्या है -मौलाना अब्दुल कलाम आजाद के खतुत का मजमुआ 98. उर्दु सवानेह निगारी का आगाज किसने किया -अल्ताफ हुसैन हाली 99. हयाते जावेद क्या है -सर सययैद की सवाने उमरी 100. यादुगार ऐ गालिब किसने लिखी - अल्ताफ हुसैन हाली 101. अलफारूक के मनुसनीफ है -अलामा षिबली नुमानी 102. आसार अबुल कलाम किसकी तस्नीफ है - काजी अब्दुल गफ्फार की 103. उर्दु सफाहात का आगाज हुआ - 1822 104. उर्दु का पहला अकबार है - जामे जहांनुमा (कलकत्ता) 105. शब ए ख्ूंा रिसाला कहां से शाय होता था - इलाहाबाद से 106. त्हजीबुल अकलात रिसाला किस सेना मे शाय होना शुरू हुआ - 1870 107. अल हिलाल के मुदरिर है - मोैलाना अब्दुल कलाम आजाद 108. अल हिलाल का आगाज हुआ - 1912 कलकता 109. रिसाला दिल गूदाज के मुदरिर थे - अब्दुल हलीम शरर 110. नियाज फतेहपुर कोैनसा रिसाला निकालते थे - निगार 111. दौर जदीद का अलमी रिसाला है - मआरूफ 112. तनकीद के लुगवी माने है - किसी चीज को परखना 113. उर्दु तनकीद की बुनियाद किसे माना जाता है - तजक्रो को 114. उर्दु में तनकीद निगारी की मुक्कमल किताब कौनसी है -मुकदमा ऐ शेर ओ षायरी 115. मुकदमा ऐ शेर ओ षायरी किसकी तस्नीफ है - ख्वाजा अल्ताफ हुसैन हाली 116. उर्दु का पहला तजकरा है -मीर तकी मीर का निकातुल शौएरा ंण् तनकीद के सिलसिले में दुनिया की पहली किताब मानी जाती है - अरस्तु की बोतबफा 117. मवाजना ए अनीस वेदबीर का तालुक्क किस सिनफे अदब से है - तनकीद ंण् शायरी का मवाद जिस कदर अल्फाज पर है उसी कदर मायने पर नही यह काॅल किसका है - सिबली नुमानी 118. मार्कसी नकाद की हैस्यित से कौन मषहुर है - एहतषाम हुसैन 119. शाहिबे तरजे नाकिद कोन है - एहतषाम हुसैन 120. तनकीद के अच्छे नमूने किस नकाद ने पैष किये -एहतषाम हुसैन ंण् वह कौनसा नकाद है जिसने उर्दु गजल को नीम वहषी सिनफेषुकन कहा है - कलीमुद्दीन अहमद 121. उर्दु तनकीद अकलीदस का ख्याली लफ्ज या माषुक कमर की तरह मोहुम है ये काॅल किसका है - कलिमुददीन अहमद का 122. गमखाना ऐ जावेद किसका तसकरा है - लाला श्रीराम का 123. उर्दु तनकीद पर एक नजर किसकी तसनीफ है - कलिमुददीन अहमद का 124. शैरअजुम के मुसनीफ है - अलामा सिबली नुमानी 125. उर्दु में जमालियाती नकाद की हेैसियत से मषुहर है - नियाज फतेहपुरी 126. उर्दु मसनवी की इब्तीदा कहां से हुई - दक्कन से 127. मसनबी इस्तीला में किन अषार को कहते है -जिसमे दो-दो मिश्ररे मक़्फी हा 128. इब्तीदाई दोर की मसनबी का मौजू क्या था - सुफीयाना खरायात 129. मसनबी बुनियादी तौर से अनसर रखती है - अपने दौर की तहजीब का 130. मसनबी दरअसल है -वाकिया निगारी ंण् मसनबी का अवलीन नमूना मनसुब किया जाता है - हजरत बाबा फरीददुीन गंजषकर 131. इब्तीदता मे मसलिमया किन बहरो मे लिखी जाती हेै - फारसी, हिन्दी बहरो मंे 132. मियां खुब मौहम्मद चिष्ती की मसनबी का नाम है - मसनबी खुब रंग 133. मसनबी चन्द्रबदन वमासार के मुसनीफ है - मखवनी 134. मसनबी चन्द्रबदन वमासार के किरदार ताल्लुक रखते है -दक्कन से 135. कुली कुतुबषाह का दरबारी शायर और मसनबी गौर कौन था - 136. उर्दु की पहली मसनबी मानी जाती है - मसनबी खुषनामा 137. खुषनामा के मुसनीफ है - शमसअलआषिक खान शाहमीरा जी 138. मसनवी शहफूल मुलुक - ग्वासी 139. सहफुल मुलक व दबाये अलजमाल का सीनाऐ तषनीफ है -1645 140. मसनबी फुलबीन का मुसनीफ है - इबनेनिषाती ंण् फुलबीन का माकुज मुसनीफ क्या बताया है -फारसी की किताब बसातीन का मन्जुम तरजुमा - 141. गोलकुण्डा का आखिरी मसनीफ निगार - फाईज 142. रोजताउल शहीदा के मुसनीफ - वलीदहवी 143. मसनवी दर तारीफ ए सुरत किसकी है - वली की ंण् सुमाली हिन्द की मसनवी सहरूल बयान के हम पाला दक्कन की मषहुर मसनवी कौनसी है - बोसताने ख्याल 144. पंछी बाछा मसनवी किसकी हेै - वजरी की 145. मसनवी बुक्ट कहानी का खालिक है -मोै0 अफजल 146. इब्नेनिषाती किस अहद का शायर है - गोलुकण्डा के सुल्तान अब्दुल्ला के ंण् ग्वासी की मसनवी सेैफुल मुल्क वबदाय अल जमाल का माखुज हेै - अलिफ लेैला का किस्सा 147. फुलबिन का सीनाऐ तसनीफ है - 1074 हिज्ररी 148. मीर हसन कहा पैदा हुये - देहली 149. सहरूल बयान कहा लिखी गइ्र्र- लखनऊ में 150. सहरूल किस्सा है - बेनजीर और बदमुब्तर 151. पंडित दया शंकर नसीम कोैन थें - कष्मीरी ब्राहा्रण 152. नसीम का सीनाऐ पैदाईष है - 1811 153. नसीम का पुरा नाम क्या है - पंडित दयाषंकर कोल नसीम 154. मीर हसन का पुरा नाम क्या था -मीर गुलाम हसन 155. नसीम किसके शार्गिद थे - आतिष के 156. गुलजारे नसीम का किस्सा है - गुलेबकाउली 157. अब्दुल हलीम शरर ने गुलजारे नसीम पर क्या ऐतराज किया था - ये मसनवी आतिष ने लिखी हेै। 158. इष्क के मोजु पर उर्दु की पहली मसनवी है - मसनवी कदमराव पदमराव 159. मसनवी कदमराव पदमराव के मुसनीफ है - निजामी बैदरी 160. मसनवी नौसेरपार के खालिक है - अषरफ 161. नौसेरपार का माखुज है - हजरत हसन के मुसाईब 162. मौसीन काकोरवी की मसनविया किन मोजुवात से ताल्लुक रखती है - मजहबी मोजवार से 163. हफीज जालन्दरी ने एक मसनवी लिखी थी उसका नाम था - मसनवी शाहनामा ऐ इस्लाम 164. दोरे ए जदीद मे मसनवी के जवाल पजीर होने का क्या सबब है -शौएरा मसनवी पर गजल को फोकियत देते हे 165. नवाब मिर्जा शौक ने कुल कितनी मसनवी लिखी - 4 166. शौक की मसनवियो की असल मेहरक था -इष्क की अहमियत बयान करना 167. शौक की मसनवी जहर ए इष्क का बुनियादी किरदार कौन है - महाजिबी 168. मसनवी मनतक अलतीर का तुरजुमा किसने कहा - वजदी (पंछी बाछां) 169. असरार ए इष्क किसकी मसनवी है - मोमिन की 170. सुबह बिजली किसकी मसनवी है - मोहसन की 171. साकिनामा के मुसनीफ कौन है - इकबाल 172. वो कौनसी मसनीफ है जो आप बीती है - मसनवी जहर ए इष्क 173. कसीदा किस जुबान का लफज है - अरबी 174. कसीदे के लुगवी माने है - दिलदार गुदा 175. कसीदे की अजजाये तरकीबी है - 4 तषबीब, गुरेज, मदहा, दुआ 176. तसबीब के मायने है - वो अषआर जो तमहीद के तोर पर किये जाये 177. उर्दु मे कसीदा निगारी की रिवायत कहा से आयी - फारसी रिवायत से 178. कसीदे का असल मौजु होता है - मदहत तराजी 179. गुरेज के क्या मायने है - तसबीब ओैर मदहामे रब्त पैदा करना 180. कसीदा गोई में शायर का मकसद क्या होता है - ईनाम व ईकराम हासिल करना 181. वो कसीदा जिसमे आगाज से ही ममदुहब की तारीफ की जाती है उसे क्या कहते हेै - खिताबया कसीदा 182. मजामीन के एतबार से कसीदे की किस्मे है - 4 तमहीदिया , हुजीया, वअजाया, बयानिया 183. उर्दु मे कसीदा निगारी की इब्तीदा कहा से हुई - दक्कन से 184. कसीदे के इब्तीदाये नमूने किसकी मदहा मे मिलते है - बुजुगान ऐ दीन के मदहा में 185. कसीदे के अवलीन नमूने किस अहद मे मिलते हेै - कुतुबषाही अहद में 186. दक्कन का पहला कसीदा कौन है - सुल्तान मौ0 कुली कुतुबषाह 187. ग्वासी के तमाम कसीदे किस बादषाह की मदहा में है -मौ0 कुली कुतुबषाह 188. अली आदिल शाह सानी का दरबारी शायर और कसीदा गो कौन था - नुसरती 189. वली तमाम तर कसाईद है - मजहबी 190. सुमाली हिन्द में कसीदे को मुसदस की शक्ल किसने दी - सौदा ने 191. सौदा के बाद उर्दु का नुमाया कसीदागो कोन है - ईषां 192. जोक के कसाईद ने अपनी कडक और दमक से हिन्द की जमीन को आसमान कर दिखाया यह कोल किसका है - मौ0 हुसेन आजाद का 193. मुगल शाह अकबर ने जोक को क्या खिताब दिया था - खाकानी हिन्द 194. वालिये टोंक के मदहा में देहली के किस शायर ने कसीदा कहा था - हकीम मोमीन खा मोमीन 195. गालिब ने किस बादषाह से शान मे कसाईद कहे ‘- बहादुर शाह जफर 196. किस शायर के कसीदे कसाईद मे हिन्दुस्तानी अनासीर की कार फरमायी है - महसीन काकोरवी 197. सीमन्त कासमी से चला जानिब़ मुकरा बादल कसीदा किसकी शान मे कहा गया - हुजुर की शान में (महसीन काकोरवी) 198. उठ गया बहमन देदई का चमन स्थान से अमल कसीदा किसका है - सौदा का 199. जहनिषात अगर किजिये इसे तहरीर कसीदा किसका है - जोख 200. अजीज लखनउ के कसाईद किसकी मदाह मे हे - बुर्जुगाने दीन की मदाह में 201. अजीज के कसाईद के नुमाया खुबी - तगजुल 202. दोर दजीज मे कसीद के जवाल का सबब हैे - जांगीदाराना निजाम का खातमा 203. गजल के लुगवी माने - इष्क ओर मोहब्बत की बाते करना 204. किन शौरा के दौर को उर्दु शायरी का अहदीजररी कहा जाता है - मीर ओर सौदा 205. मकता किसे कहते हेै - वो शेर जिसमे तखलुस हो 206. मुतासेाफाना शायरी मे किसको इम्तियाज हासिल हे - ख्वाजा मीर दर्द को 207. किस शायर के क्लाम गम इष्क ओर गम रोजगार का बयान है - मीर तकमीर 208. मसीहा किस लफज के मुसतीफ है - रसा से 209. मरसीया के मायने है - रोना रूलाना वाकियाते करबाला का बयान करना 210. उर्दु मरसीया की इब्तीदा कहा से हुई है - दक्कन से 211. दक्कन मे उर्दु का पहला मरसीया निगार कौन है - मौ0 कुलीन कुतुबषाह 212. बीजापुर, गोलकुण्डा और अहमदनगर में मरसिया की मगबुलियत की वजह क्या थी - 300 हुक्मतो के बानी ईरानी थें 213. 1- ऊर्दू रसमूलखत किस कहते है ? इसकी क्या खुबियां है। ,तेराजात के साथ बयान किजि,।
ऽ जुबना हमारे ज़ज़बात और ख्यालात के इजहार का जरिया हैं, और जुबान व रसमूलखत में Ûहंरा ताल्लूख है। हर जु़बान को ,क रसमूलखत की जरूरत होती है, जो जुबान मेें ज्यादातर अलÛ-अलÛ होती है। इस तरह सारी जुबनि ,क ही रसमूलखत से काम चलाती है। हर जु़बान का रसमूलखत मिजाज व सारवत के मुताबिख के होता है और वो उसी में सही तौर पर पढ़ी जा सकती है। किसी दुसरी जुबान रसमूलखत मे मुनतकील करने से इसकी सुरत इस क़दर सख्त हो जा,Ûी के पहचानना मुश्किल हो जायेÛा इसलि, रसमूलखत को जुबान का लिबास या जिल्द कहा जाता है। 2- रसमूलखत किस कहते है ? ऽ रसमूलखत से मुराद वो नक़ूश व अलामत है जिन्हे हूरफ का नाम दिया जाता है और जिकी मद्य से किसी जुबान की तहरीरी सूरत मुतउाईन होती है। दूसरे अल्फाज में जुबान मे तहरीरी सूरत का नाम रसमूलखत है या हुरफ जो तल्लफूज की अदा,Ûी और मायने के इज़हार के लि, इस्तेमाल हेाते है और अपनी मरबूत सूरत मे किसी जुबान का रसमूलखत कहलात है। ऊर्दू रसमूलखत किसी रसमूलखत की अच्छाईयां बुराई को दो तरीको से परखा जाता है 1- ,क वो जो किस हद तक मुफीद है। 2- दूसरे ये के देखने मे कितने खुबसूरत है। रसमूलखत ,ेसा होना चाहि, के हुरफे तहज्जी के बोलने में जितनी आवाजें पैदा होती है इस सभी आवाजो को पढ़ने वालो के सामने खूबसूरती क्या हो आते है। इस तरीके से ऊर्दु का रसमूलखत बहुत जामा और कामयाब है के वो ऊर्दु जुबान की मरूजा आवाजो की नुमाइदंÛी करता है - अÛे्रंजी से लेकर इलाकाई जुबाने इस तरह समा Ûई है के दुनिया की हर आवाज का मजमुआ बन Ûई है इसलि, जिस तरह अपने जखीरे अलफ़ाज और सिरफवनहु के लिहाज से ,क मखलूत जुबान है ऊर्दु दाये से बायें लिखी जाती है और जाहीर में अरबी फारसी रसमूलखत से बहुत बहतर और करीब है। ऊर्दु के रसमूलखत को अरबी या फारसी रसमूलखत ख्याल करना दुरूस्त न होÛा - क्योकि ऊर्दु के हुरफ - ,-तहाज्जी मे हिन्दी ओर अÛ्रेंजी की ,ेसी आवाजे भी शामिल है जो अरबी और फारसी में शामिल नही मसलन वÛेरा - मुखतसर ये है के ऊर्दु का रसमूलखत और उसकी वअस्त सारी जुबानो को अपने अन्दर समेटे हुये है सर विलियम जोन्स - ‘‘ मुकम्मल जुबान वो है जिस मे हर वो ख्याल जो इन्सानी दिमाÛ मे आ सकता नही निहायत सफाई और जोर के साथ ,क मखसूस लफज के जरिये जाहीर किया जा सकता है। मुकम्मल रसमूलखत वो है जिसमे उस जुबान की हर आवाज के लि, ,क मखसूस निशान हो रसमूलखत की इसी तारीफ मे ऊर्दु का हर रसमूलखत पुरा उतरता हैं ऊर्दु रसमूलखत की खुबियों को हम जैल मे इस तरह सुमार करते है। ऊर्दु रसमूलखत की खुबिया 1- ये बाÛरी और अÛ्रेंजी रसमूलखत के मुकाबले मे जÛह कम लेता है। 2- इसमे काÛज और वक्त दोनो की बचत होती है। 3- देखने मे खुशनुमा दिदा जेब लÛता है और खास किस्म की कशीश रखता है। 4- ऊर्दु रसमूलखत मे अराब की जरूरत नही होती 5- इसमे अराब के लि, अलÛ से हुरफ नही है। बल्कि जेर, जबर, पेश के लि, निशानात से काम लिया जाता हैै। 6- दाय से बाय लिखा जाता है। 7- इसके बेशतर हुरफ अरबी, फारसी से करीब है। ,ेतराज़ात (कमिया) 1- इसमें हुरफे तहज्जी की तादाद ज्यादा है जो तालीबेइल्म को सीखने, लिखने और महारत हासिल करेन में मुश्किलात पैदा करती है। 2- ऊर्दु रसमूलखत के हुरफ कई-कई शक्ल बदल देते है। कभी पुरा कभी आदा कभी हुरफ का चेहरा ये तबदिलिया ऊर्दु फरकाबूपाने में मुश्किलात पैदा करती है। 3- ऊर्दु हम (सूत) यानी आवाज रखने वाले हुरफ जो जो लिखना सिखाने में खास तौर पर उलझन पैदा करती है, चुनाचे इमला में Ûलतियां लम्बे अरसे तक तुलेबा करता रहता है। 4- अराब के दुशवारिया है - सिर्फ क़यास से ही काम लिया जाता है। 5- ऊर्दु रसमूलखत में बहुत से हुरफ लिख जाते है। लेकिन पढे नही जाते ख्वाब खुवाइश अब्दुलरहमान 6- हाईप और दबाअत की मशीने बमुश्किल तैयार होती है। हर तदरीस से किब्ल तदरीस का वाजे मौजू मअलिम के जहने मे होता है क्योकि अमले तदरीस के किब्ल हर सबक की ,क खास तैयारी की जरूरत होती है। मनसूबा , सबक का नाम इस सिलसिले मे हमारे जहन में आता है मनसूबा बन्दी मुआलिम को रहा दिखाती है के इसे तलेबा को किस सिम्त ले जाना है - ये मंजिल और राहे मंजिल देानो से वाकफियत कराता है। तारीफ - योमे मन्सूबा - ,सबक उन उसूल फहरिस्त का उन्वान है जिन्हे मअलिम दरजा मे हासिल करना चाहता है और उनमे वो सभी जरा, औक्र मशामील भी शामिल है । जिनकी वजह से या मद्द से उसूल मयसर होते है। स्मेेवद चसंद पे जवजंस जव ं मेजंसउमदज ंबीपमअमउमदज जव इम तमंजमहमक जीम ेचमबपमे उपदम इल ूीपबी जीमतम ंतम जव वचसपदमक ंे तमेंसंज व िजीम ंजजपअपजपमतमदहंहमक कमपरतपदह जीम चमतपवक - मन्दजा बाला तारीफ मे तीन निकाल अहम है। 1- अलिम किल मक़ासिद और उसूल को हासिल करना चाहता है। 2- इन मकासिद के उसूल में वो किन मारून अशया क ा इस्तेमाल करेÛा। 3- मुतालिमिन के जरिये किये जाने वाले मशाÛील जो सबक से मरबूत हो। मन्सूबा -,सबक से ये मालूम होता है के तुलेबा ने क्या आमूस्त किया है और मजीद किस सीम्त को हिदायत दरकार है और मुकर्र। साख्त मे क्या तदरीस किया जाये और इस तारीफ के मुताबिक मे सूबा सबक मे तीन बाते होना चाहि,। 1- तुलेबा की साबक़या वाकफियत 2- सबक का मक़सद जो के हासिल किया जाना है। 3- मतन का खांका या शक्ल, सूरत तैयार करना। तारीफ - योमा मन्सूबा , सबक ,क मुर्करा वक्त के दरामियान मे किसी जमाअत में किसी भी मन्जमून को किसी उन्वान के तहत् मआलिम तुलेबा के दरामियान मखसूस मकासिद की तहसील व मशाÛील का वो खाका है। जिस मे मुआलिम तुलेबा कीर साबंकिया वाकफियत का पता लÛाते हुये तदरीस मतन का अहाता व तरीफा कार का इन्तेखाब करता है और आखीर मे तुलेबा की ज़हन नशीनी का जायजा लेता है। योमा मन्सूबा सबक तैयार करते वक्त मुदरिस को सबक के सभी पहलुओ पर नजर सानी करनी पडती है क्योकि इसके लि, बिना सवक का खाका तैयार नही हो सकता है और दरजे मे सबक की शुरूआत सही ढंÛ से नही हो पाती है और तुलेबा को समझाने मे ंभी दिक्कत पैदा होती है - तमहीद - तमहीद तुलेबा की ज़हन सर Ûर्मियों की तमहीद होती है। यानी पहली मन्जिल होती है। मसलून - जिस तरह इन्सान के जिस्म का तआल्लूक रूह से होता है। उसी तरह मन्सूबा सबक मे तमहीद रूह की मानिद होती है और मूदरिस तुलेबा के ख्पालात को जÛाने, साबकिया मालुमात को ताजा करने और पढा, जाने वाले सबक पर आमादा होने का काम इमके तहत करता है। इस हिस्से मे मुदरिस तुलेबा के जखिरा-, मालुमात के हिस्से के चस मन्जर में सबक का आÛाज करने के लि, तुलेबा का जहनी और जजबात झूकाव पैदा करता है। उनके अहसाजात के जजबे को महतरिक करता है और बाअज महरकात फराहम करता है, और तुलेबा की तब्बजे ,क मखसूत नूकते परमरकूज़ करता है सबक की कामयाबी व नाकामयाबी का इन्हसार तमहीदी सबक पर ही मुबनी होता है। क्योकि के जरिया तमहीदी तदरिस चन्द ही मिन्टो मे तुलेना की जहनी रफाकत को ?ा.टे के आखिर तक के लि, हासिल कर लेता है या महरूम हो जाता है। अÛर मुदरिस तुलेबा की साबका वाकफियत को हरकत में नही है तो उसे दोरान तदरिस बार-बार पीछे वाली दोहरानी पडती है जिसमे तदरिस अमल की रवानी व हमवारी पर दरकार होती हैं मखतसर ये है के तमहीदी सबक वो फर्श होता है जो के साबकिया वाक़फियत और पेशकश की मनाजित मे अरतबात करता है। तमहीद की तरतीब के लि, कोई खास उसूल मतअईन नही होते है आम तौर पर इस में कोई माॅडल, चार्ट, नक्शा या तस्वीर दिखाकर या फिर मुखतसर बयान करके या फिर तख्तेसिया पर किसी मालूम अल्फाज जमा वÛैरा लिखकर सवालात तलब किये जाते है जो कि आम होते है फिर उनके जवाबात से उम्मीद रखते है और सवालात मजिद इस तरह से किये जाते है जो नये सबक की जानिब इशारा रूजूस होते है और आखिरी सवाल मसला - ,कुन होता है जो नये सबक की जानिब इशारा होता है ख्याल ये के तमहीद सबक कि तरफ रूजूअ करने का ,क जरिया है सबक का जुज उसे दो तीन मिनट मे खत्म करके सबक का आÛाज कर देता है। दुसरे ये बाअज मुआलिम तमहीद से सबक का उन्वान आखूज करने की कोशिश करते है ये तरीका Ûलत से बल्कि उन्वान को नही बल्कि नक्शा मजमून को जहन मे रखना चाहि,। इजहार-,-मक़सद मन्सूबा सबक में तमहीद के बाद तदरिस मे मुआलिम का ये अÛला कदम होता है तदरिस मे इसकी हैसियत बिल्कुल इम तरह होती है। जैसे किताब के ऊपर उसका टाईटल क्योकि महज सबक की ,क मंजिल होती है सबक का जुज नही। इस तदरिस पर मुअलिम तुलेवा को वाजे अल्फाज में फिल वाजेह सबक का मौजू और मकासिद से बहस करता है मंजिल तमहिद और मतन के दरमियान तसलसूल कायम करती है। तुलेबा को ये अहसास दिलाती है के तमहीदी बातचीत खत्म हो जाती है और नई मालूमात करने का वक्त आ Ûया है और तुलेबा सबक मे दिलचस्पी लेने लÛते है नये आमूर को जानने के लि, उनमें शोख पेैदा होता है और वो इजाद से सबक की तरफ मुताव्ज्जे होते है। ,ेलान सबक में सबक का उन्वान जो अब तक तख्तेसिया पर लिखा नही होता तहलीली शक्ल मे ली तुलेबा के सामने मुदरिस लाता है। पेशकश ः- जैसे तदरीस सबक का ये सबसे अहम् जुज होता है मुअलिम किस महारत ओर तदबीर किया सबक को पैश करता है वो इसकी तदरीसी कामयाबी का दामन होता है इसके तहत् - 1 मअलिम की खुवानी 2 मुतकलिम की खुवानी 3 अल्फाज की तशरीह 4 सवालात तुलेबा मे सिलसिलेवार आते है मुदरिस और तुलेबा के माहीन तफाफील और तुलेबा की शिरकत और मद्द ओर मुदरिस की तदरीस- महारात का इस्तेमाल जहनी व इमदादी व साइल का इस्तेमाल सभी कुछ शामिल है जो के कामयाब मोअमर तदरीस के लि, माकूल है। कराते मुआलिम ज़ेरे तदरीसे सबक के उन्वान से आÛाज़ कराने के बाद जुबान के सबक मे पढा, जाने वाले इबारत रववानी, मुअलिम के ज़रिये की जाती है ये फरात या ख्वानी ,क ,ेसा नमूना होती है के जिसकी तकलीद सामीन व तुलेवा कर सके और नमूना की क़रात पैश करने का असल मकसद ये है के तुलेबा मे सही और मुनासिब ओर मुअसिर लबो लहजा मे ऊर्दु पढने की सलाहियत पैदा हो, इसलि, ये जरूरी हो जाता है के मुअलिम की करात निहायत मुअसर हो उसका लबोलहजा रफतार करात आवाज तलफ्फूज और अबकाफ मुनासिब व मुआसिर होÛी तुलेबा इसी कदर फायदा उठायÛें अÛर मुआलिम सहत तलफ्फूज और आवाज के उतार चढ़ाव अन्दाजे क़रात मे सही ढंÛ से काम न ले तो मिसाल करात का नाम खत्म हो जा,Ûीं। मिसाली करात मे तुलेबा को तलफ्फूज की दूरस्तÛी नफ़स मज़मून को भी समझने मे आसानी होती है। नसर व नज्म की क़रात मे इम्तंयज का होना भी जरूरी है बल्कि ख्वानी के दौरान तुलेबा पर भी नजर रखी जाती है के वो उनकी किताबो मे नज़र रख रहे है या नहीं। कराते मुतअलेमिन मुअलिम की नमूना खुवानी के बाद तुलेबा को पढाया जाता है तुलेबा के ज़रिये मतन की खुआनी के दोरान उनके Ûलत तलफ्फूज, लबो लजा, फिक्शबन्दी, खानी तसलसूल पर खास नजर रखी जाती है। उनकी Ûलतियो की इस्लाह की जाती है Ûोैरतलब बात ये है के उनकी Ûलतियो की इस्लाद के मुतअलिक इखतलाफ आरा पाया जाता है। जिसकी बुनियाद हर वक्त टिक कर उनकी इस्लाह करने या न करने पर है, लेकिन मुतअलिक राय ये हेै के तुलेबा की Û़लतिया दूसरे तुलेबा से न तो निकलवायी औ न ही इस्लाह करवानी चाहि, बल्कि मूदरिस को खुद तुलेबा की Û़लतिय निकालने और इस्लाह करने दूसरे ये के हर ताली वे इल्म की Ûलतियां इनफरादी तौर पर दूरस्सत करना चाहि,। हर वक्त टोंक देना चाहि, या फिर बाद में इस्लाह करना चाहि, क्लास की सूरते हाल और मुआलिम की तरीका-,कार पर मुबनी है दोनो तरीके इस्तेमाल किये जा सकते है। तलफ्फूज की दूरस्तÛी का तरीका ये होना चाहि, के करात की Ûलतियो के बाद उनकी तवज्जो Ûलतियों की तरफ दिलाई जा, जिन अल्फाज का तलफ्फूज तुलेबा Ûलत करे उन्हे मुअलिम को खामोशी से तख्ते सिया पर लिख देना चाहि, और करात के बाद तलफ्फूज सहत के लि, पहले उन्ही अल्फाज को तुलेबा से पढवाया जा, और फिर भी Ûलती करें तो अराब लÛाकर पढाया जाये और मशक कराई जा, दिÛर तुलेबा को सुनने की हिदायत दी जा,। सुवालात सवाल जहन में आई हुई उलझनो और Ûत्थीयो को सुलझाने में बहुत मदद कराते है - ,क मासूम बच्चा जब अपनी मां के साथ बाजार जाता है या टेªन मे सफर करता हेै तो हर चीज के बारें में मुखतलिफ सवालात करता है - बाप उसके हर सवाल का जवाब देता है वो सवाल पर सवाल बनाता रहता है - आखिर बाप को ही थकना पडता है कहने का मतलब ये है के क्यो, कब, कैसे, कहां ये ,ेसे सवाल है जो बच्चे की टेन्सन को दूर भी करते है और बढाते भी है। बच्चे के ,ेसे सवालात की दिमाÛी नशोनुमा इतनी और जहनी फरोÛ मे बहुत ही सूद मन्द हे क्योकि इन सवालात से ही उनके फितरी जजबात बहार निकलते है। तालिम मे सवालात के जरिये बच्चो को जितनी मालूमात होती है। उतनी किसी दूसरे तरीकेकार से नही वालदेन और अमातजा का फर्ज है के बच्चो की नफ़सियात और इदराक को लम्हूज खातीर रखकर उनके सवालात के मुनासिब जवाब दे ताकि उनका जोश व शोक बढे और वो उकता न जा, बडो को बच्चो के सवालात से उलझन महसूस नही करना चाहि,। अÛर बच्चो को डांट दिया या झडक दिया तो उसकी जहनी सलाहियपते मजरूह होÛी और उसके जवाब मे ंउकताहड और चिढचिढाहट पैदा हो जायेÛी और आÛे चलकर वो अपने उस्ताद या ज़हीन साथियों से किसी क़िस्म के सवालात नही पुछेÛा। बच्चो के लि, अच्छे सवालात और उनके जवाबात उनकी दिमाÛी कसरत और सहत की जमानत है अच्छे उस्ताद बच्चो को पढाने मे बीच-बीच मे सवालात पुछकर उनकी तज्जे इस सबक या नज्म मे कायम रखते है। बच्चे के सवालात का जवाब देते वक्त इस बात का ख्याल रखना चाहि, के बच्चो मे बेकार और फालतू किस्म के सवालात करने की आदत न पडे। ,ेसा करते वक्त वो बेतुका बोलते है और जहन पर जोर नही देते बच्चो मे ये आदत पेदा करना उस्ताद का काम है के वो सोच समझकर मुफीद मतलब सवालात करें - Ûैर जरूरी सवालात सबक पढाने के बीच मे नही होना चाहि,। बच्चो को हर मुकाम पर सवालात करने का हक हैं। उस्ताद भी बच्चो से सवालात करके उनकी जहनी इस्तआदाद का पता लÛाता है। जब बच्चा सवाल का जवाब देने में हिचकिचाहट महसूस कर रहा हो या रूक रहा हो तो उसकी हिम्मत बढानी चाहि, ‘‘शाबाश’’ लफज का इस्तेमाल करने से बच्चे की याददाश्त और जवाब देने पर अच्छा असर पडता है। सवाल पुछने का ,क मकसद ये भी है कि उस्ताद असल मोजूक की तरफ बच्चे की रहनूमाई कर रहा है - दरस व तदरीस मे जरूरी है के उस्ताद को सवाल पूछने के Ûुर आते हो वो बच्चो की जहनी सलाहियतो, इदराक, रूहजानात और उसकी नफसियात से वाकिफ हो - सवाल माकूल और बमकसद हो। सवाल का मकसद सवाल का अहम मकसद बच्चे की तलाश को दूर करना और असल मोजू के बारें में मुकम्मल मालूमात हासिल करने के साथ रहनूमाई करना है साथ ही पढाने के तरीके कार को दिलचस्प और कार आमद बनाना । सवाल का मकसद ये होना चाहि, के सीखने वाला हसूले के लि, खुद महरक बने वो खुद अपने ज़हन पर जोर दे और Ûौर फ्रिक कर सकें। सबक पढाते वक्त सवालात की बडी अहमियत है कामयाब उस्ताद तालिबे इल्मो को सबक मे महू रखने के लि, बीच-बीच में सवालात करते रहते है। जिससे सभी बच्चो को ध्यान सबक की तरफ रहता है, क्योकि वह डरता है कि उस्ताद बीच क्या पूछे लें। खुसूसन सबकी की तमहीद मे सवालात इक्तेहानी हैसियत रखते है। मअलिम का खास मकसद ये होता है के वो मोजू के मुतअलिक बच्चो की सबक का मालूमात जाचें और देख के अब तक उसने बच्चो को क्या पढाया है। उन्होनें कितना सिखा पढा और जाना है। उसके बाद बच्चो को सवालात के सहारे मंजिल व मंेिजल पढाते हुये सबक के आखिर तक पहूंच जाता है और फिर आखिर मे ंउस सबक से मुतअलिम सवालात करके ये जाने की बच्चे का रूझान कहा था और उसको कितनी मालूमात हुई मुअलिम तारीकी व मोÛराफिया को खुद बताये। अच्छे सवाल की खुबियां 1- सवाल बच्चो की उम्र काबलियत, सलाहियत के मुताबिक हो। 2- सवाल वाजे हो जिससे पूछने वाले का मकसद भी साफ ज़ाहिर होता हो। 3- सवाल की ज़ुबान आसान, साफ, सूथरी और मुखतसर हो। 4- सवाल के अल्फाज फिकरे बिल्कुल वहीन हो जो इबारत या सबक में आये हो। 5- सवाल मे शबता और तससूल हो। 6- सवाल के जवाब मुखतसर हो - हां, नही, Ûलत, सही। 7- सवाल से सवाल पैदा हो जिससे बच्चे में दिलचस्पी बरकरार रहें। ऊर्दु तदरीस तालीम के तीन अहम पहलू हैं। मुआलिम बच्चा और मौजू तदरीस इन दोनो मे तअल्लूक और राबता कायम रखती है। बच्चा पैदाइश से ही बे सहारा होता है, उसे हर कदम पर रहनूमाई और सहारे की जरूरत है अÛर उसकी सही रहनूमाई नही हुई तो वो जिन्दÛी मे कभी कामयाब नही हो सकता - तदरीस मआलिम की राहनूमा है तदरीस तदरीस से मुराद को अमल हे जिसके जरिये किसी खानदान या मआशरे के तजुरबेकार फराद मासूम और जाहिल बच्चो को अपनी जिन्दÛी Ûुजारने के लि, रहनूमाई करते है। तदरीस के ममुअल्लिक लोÛो से Ûलत नजरयात रहे है। उनके ख्याल मे तदरीस का मतलब बन्धे तुके असूलो के सहारे मुर्कशह हिसाब के रटा दिया पूरा कर देना या बच्चो के दिमाÛ मे ठान देना रहा है आज से तकरीबन चाद दाई किव्ल तदरीस कुछ आये या नही बच्चे वे अमल थे जैसा उनको कह दिया जाता था वैसा ही करते वो लकीर के फ़कीर होकर रह Ûये थे। दौरे हा ज़रा में तदरीस के मायने और मजुहूम बदल चुके है तदरीस का मतलब बच्चे को ,ेसे मौके फराहम करना है जिन से बच्चे अपनी दिलचस्पियों और रूजाहानात की मदद से अपने मसाइल खुद हल करने की सलाहियत पेदा कर सके वो अपने बहतर तुसतकवील के लि, खुद मन्जूबा बना सकें। जरूरी मवाद इक्ठठा कर सके और जो नतीजा निकले उसे वो काम मे ला सके - तदरीस का मतलब ज्यादा से ज्यादा मुअसिर अन्दाज मे इल्म की रोशनी से बहार करना है। तदरीस के मकासिद 1- शबता कायम करना - तीनो में। 2- खुशÛवार माहौल बनाने मे माउन (मदद) 3- इत्म में इजाफा करना। 4- तरÛीब देना 5- रहनुमाई करना। 6- बहतर मसतकबील की तैयारी 7- रूजाहानात व दिलचस्पी पैदा करना ऊर्दु तदरीस के मकासिद - जब तक किसी काम के पीछे कोई वाजे मकसद न हो उस वक्त तक काम करने वालो में कोई वलकला पैदा नही होता है और न ही मकसद काम से कोई मुफीद नतीजा बर आमद होता हैं। इसलि, तो तदरीस के वक्त हमारे सामने ,क वाजे नसबूल,ेन होना जरूरी है ताकि तदरीस तुआसिर मुफीद या कारआपदा बताई जा सकें। सभी जबानो की तदरीस के मकासिद कमो पेश ,क से होते है अÛर कुछ जाइद मकासिद और भी है तो वो उस जबान के मखसूस पसमन्जर मुल्की व कौमी या मआशरे की जरूरतो के मुताबिक मुतअशन किये जाते है। कोई जबान जिस आमूर की बिना पर मुल्की कौमी जिन्दÛी अहम ख्याल की जाती है दरअसल उन ही अमूर की तकमील ज़बान का ,ेन मकसद होता है। हर जुबान के लि, उसका बोलना पढना लिखना और जुबान को समझना सिखना ये मकसद होते है। बच्चा अब इसे कमिया मे आंखे खोलता है तो उसी वक्त उस के कानो मे कुछ आवाजे आनी लÛ जाती है और उन आवाजो मे ,क आवाज उसकी मां की भी होती हैं - मादरी जुबान बच्चा अपनी मां की Ûोद मे सिखता है। इस जुबान के जरिये वेा अपने Ûिर्दोपेश के माहोल से शनासाई करता है और खारजी दुनिया से इसके बाद सिखी और बरती जाने वाली जुबान ने दूसरे मकसद मे आती है इस लिहाज से जब हम जबान की तदरीस करते है तो वो जहन में रखता होÛा के वो जबान व हैसियत मादर जुबान के Ûैर मादरी या सानवी हैसियत से तदरीस की जा रही है। 1 नसरीनजन की तफहीन ही काफी न समझी जाये बल्कि जुबानो बयां के लफजी के साथ-साथ इबारती अशारो के मायने का भी तुलेबा को अहसास कराना। 2 अंसाफ शायरी मे Ûजल, कसीदा, मसनवी, रूबाई कला के फनी लवाजिम से तुलेबा रूशनास हो सकें। 3 असनाफ नसर में किस्सा अफसाना, नाविल, ड्रामा खानेह निÛाई ,खाका, मजमून, 10 इन्शाइया के लवाजिम को जान सके। 4 मूम्ताज शअरा और मुसनिफ के कलाम तरजे तदरीर सवानेह की बाािफयते को हम जुज तसलीम किया जायें 5 जिन्दÛी के तमाम शौअलें 6 तकरीर और तहरीर का लबोलहजा मौअमर और इन्फराही जामा बनाया जा सके। 7 तुलेबा अपनी तहलीफी सलाहियतो बसनिददा सलाहैयतो को बूरोट कर ला सके। 8 तुलेबा के हफिजे मे मुतअद नजमे Ûजलात। 9 सहत तल्लफूज और मुहावरा ले का सही इस्तेमाल। 10 जुम्ले की साख्त अकसाम और कायदे जहनेनशी हो सकें। मान्टेसरी तरीका तालीम माॅन्टेसरी तरीका तालीम का रिवाज हमारे मुल्क मे आम हो Ûया है। कमसीन बच्चो के लि, ये बहुत ही कार आमद तरीका तालीम हें इसमे बच्चा इन्फरादी तौर पर तालीम हासिल कर सकता है, क्योकि माॅन्टेसरी का ख्याल था के हर बच्चे की जहनी जिसमानी नशीनुमा इन्फरादी तौर पर हो क्योकि बच्चा जिसमानी और जहनी ,तेबार से अलÛ-अलÛ सलाहिसतो का हामील होता है। वो बच्चे को आजादाना तौर पर तालीम देना चहाती थी। इनका ये भी ख्याल था कि बच्चे की शखसियत की तामीर पर सुकून और आजाद माहोल मे होना चाहि,। माॅन्टेसरी तालीम के असूल 1- आजादी का असूल - माॅन्टेसरी ने बच्चो की आजादी पर जोर दिया उनका ख्याल था कि बच्चे आजादाना तोसर पर अपने जहन और जिस्म दोनो की नशीनुमा कर सकते है। इनकी मरजी के मुताबिक खेलने कुदने ओर काम करने का मोका मिलना चाहि,। आजादी से मुराद बच्चे की फितरी सलाहयती और ज़हनी रूज़हानाते के लिहाज से चलने की आजादी मिलनी चाहि,। 2- ज़हनी व जिसमानी नशीनुमा - माॅन्टेसरी बच्चे की अन्दरूनी सलाहियतो को उभारते पर जोर देती है। इन सलाहियतो को फलने फूलने और उभरने का मौका देती है, वो मुआलिम को ,क माली तरह मानती है जो उन पौधो की परवरिश बहतर करता है और उनको फलने फूलने और उभरने का मौका देता है। 3- बच्चे की शखसियत का लिहाज - माॅन्टेसरी बच्चे बहुत अहमियत देती है बच्चे की भी अपनी ,क शखसियत है ओर ये शखसियत मजरूह नही होना चाहि, ,ेसा कोई काम नही करना चाहि, इसमे बÛेर उस्ताद के ही बच्चा अपने तौर पर बहुत कुछ सिखता है। उस्ताद को बच्चे के मामलात् मे ंबताय नाम दखन देना चाहि,। सिर्फ उस पर निÛाह रखना चाहि,। माॅन्टेसरी मे ,ेसे तरीके भी अपना,े जा रहे है के बच्चे खुद अपनी Ûलती सुधारे - 4- खेलकूद के जरिये तालीम - बच्चे में खेलकूद के शोक फितरतन होता हैं। खेलकूद के जरिये कोई बात सिखना बहुत आसान हो जाता है। इस वजह से इस तरीके मे खेलकूद को बुनियाद बनाया जाता है। खेलकूद मे हुरफ शनासी Ûिनती वÛैरा सिख जाता है। बच्चो को खेलकूद से तालीम देने के लि, खिलोने और दुसरी चीजे बनाई Ûई है। 5- समाजी तरबीयत का असूल - बच्चो का ?ार में उनको अपने सारे काम खुद करने पडते है, जैसे खाना लÛाना, कमरे की सफाई, परिन्दो और ?ारेलू जानवरो की देख रेख करना अखलाक व आदाब उठने बैठने का सलीका ये तमाम बातें माॅन्टेसरी तालीम से बच्चे को खुद आजादी हैै। इसमे बच्चे की माहोस से मुताबिकत कराई जाती है अहसासात की तरबीयत तदरीस क़ुवाइद/ऊर्दु कुवाइद - कुवाइद की तालीम का मकसद से हेै के कुवाइद सिखने से आÛे चलकर बलाÛत की तहसील मे आसानी होती है और दुसरी जबान सिखने से पहले अपनी जबान की कवायद से वाकिफ होना बहुत जरूरी है इसके पढने से जुमले की तहलील और लफजो की नशस्त का अन्दाजा होता है। इससे बडा इजाफा ये होता है के अÛर कोई तालीब-,-इल्म समझ-बुझ कर कुवाइदकी तहलील करे तो वो अमल तखील की तहलील करता है। कुवाइद के इस्ला ही मयाने जबान का वो इल्म है जिस मे जबान की साख्त हुफ्र की बे साख्त अल्फाज की कसमे और ताईम के अनूल मअवूद के कायदे अल्फाज सारजी के कवाइन अकवाल व अफआल की किसमे मुफरिद व मुर्रकिब अल्फाज जुमलो की बनावट और किसमे इौर किस्म के दूसरे मसाइल जेरे बहस आते है। जबान दानी के लि, कवायद की तालीम बहुत जरूरी है खवाह जुबान का इस्तेमाल तकरीरी हो या तहरीरी मुखतलिफ जुबानो मे कुवाइद की किताबें मौजूद न होती तो मादरी ज़बान के सिवा किसी दुसरी ज़बान का सिखना बहुत मुश्किल होता है। दुसरी जबान के अलफाज कुवाइद दुसरी जबान को सीखने मे मारून साबित होती है। इबतदाई जमातो मे तुलेबा मे ये सलाहियत नही होती के जबान के उसूल व कुवाइद को समझ सके वो कुवाइद की अहमियत को महसूस भी नही कर सकते और इनके सामने रखी जाये तो वो जबान से मनफिरद होकर किनारा कशी करने लÛते है। इसके बर अकस हम ये देखते है कि तुलेबा कुवाइद के बारें मे नही जानते है फिर भी इनकी तहरीर व तकरीर कुवाइद के उसूलो के ,न मुताबिक होती है यानी अपने Ûिर्दो पेश में इस्तेमाल किये जाने वाले फिकरे या इबारत सही इस्तेमाल किये जा सकते है। इस जबान की तदरीस का बहतरीन मुआल्लिम खुद तुलेबा क माहोल होता है। जिस में वो अमल तौर पर कुवाइद की मुख्तालिफ उसूलो की महारत रखते हैं। इन सतहो मे हमको दो मुखतालिफ इशारो का अहसास जरूर होता है वो अव्वल थे के जबान बच्चा अपने माहोल मे सीख लेता है। दोयम ये कुवाइद की तालीम जरूरी और ला बदल है इसलि, कुवाइद की तदरीस की तालीम जरूरी है और इन दोनो Ûिरोहो के खिलाफ कुवाइद मन्जरेआम पर नही हो सकती है। कुवाइद तदरीस है और कुवाइद की तदरीस मे भी बिलख्चासस तदरीसी तरीका का तौर कुवाइद को पढाने के दो तरीके है। इसतखराजी तरीका - यंे कदमी और रिवायती तरीका है इसमे कुछ सलाह यानी उसूल व कायदे लिखाये जाते है तुलेबा को इम लिखी हुई इमतलाहो को रटा दिया जाता है । फिीर उनकी मिसाल फराहम की जाती है और नई सुरतो हालत में रतलाक करा दिया जाता है । 1- इस तरीके कार का नुस्ख ये होता है के तुलेबा उन तारीफो को मुअल्लिम के हुक्म से रट लेते है और उनके फन्नी इतलाक से सरोका होता है न ही वो इनकी तफहीम पर जोर देते है नतीजा मआने व मतालिब से महरूकी और न समझी की मुश्किल सामने आती हैै। 2- तुलेबा पामर अलÛ से मजमून समझकर अपने को दूर रखने की कोशिश करते है। वो इसको परेशान कुन बकेफ समझ कर मुन्तअम हो जाते है। 3- ये तालीम के अहम् उसूल मुर्क़रून मुर्जरत मालूम से न मालूम की तरफ। 4- तुलेबा जुबान को हर शे और इस्तेमाल मे इसकी अफादियपत को अहसास नही करते है बल्कि उसे जिन्दÛी के बाईद जानने लÛते है और अमल काम सानवी हैसियत का हो Ûया है। 5- इसमे तुलेबा सिधे ही जूज या अजमा,स सामने आ जाते है। 6- तुलेबा के ज़हन को तदरीस की तरफ आमादा नही किया जा सकता। इस्तक़रारी तरीका - इस्तकारारी के लफजी मानी ढूंढकर किसी खास चीज से आम नतीजा निकलता है। अपने मानवी अन्दाज हू बहू इस तरीके कार मे कुछ फिकरे या इबारते की जाती है और उन्ही के जरीये तफहीम करते हुये कुछ तारीफे मुर्रतब की जाती है और उसूल आखुज किये जाते है और आखिर मे मशकी अमल के तौर पर कुछ अच्छी मशके दी जाती है। मिसाल के तौर पर Ûौरी ने अजमेर और दहली की फतह किया था। कुतुबुद्दीन ,ेबक को तअेनात किया था और इल्तुतमिश ने हिन्दुस्तान मंे सल्तनत की बुनियाद डालीं। ये इबादत तुलेबा के पेश नजर लाने के लि, था। लाने के बाद हिदायत दी जाये के इस इबारत को पदो और जुमले पर Ûौर करो खास तौर से उन अल्फाज पर फतह किया तैनात किया बुनियाद डाली इन पर कुछ सवालात तलब किये जाये। 1- सवाल - अजमेर व देहली को फतह करने का काम किस ने किया - Ûौरी 2- हुकुमत की देखरेख और इन्तेजाम के लि, किस को मुर्क़र किया था। - कुतुबुद्दीन ,ेबक 3- मुस्लिम हुकुमत की बुनियाद किसने डाली - अलतमश ने ये वजाहकत कि जाये के काम किसने किया इस काम सवाल के जवाब मे जो जवाब (,क लफज) आता है उसे काम करने वाला कहते है। इस तरह नतीजा या उसूल ये बनाया Ûया के काम करने वाले को फाईल कहते है। इस इबारत की मफउल की तारीफ मिसाली अन्दाज मे करते है। 1- इस्तकरारी तरीका मालूम से न मालूम और कुल से जुज की जानिब मकरूम से मुर्जरह की तरफ तुलेबा को रूजूह करता है, जो के उसूले तालिम के माफिक है। 2- इस तरीके मे कुवाइद की तदरीस मे तुलेबा की जहनी -नशोनुमा के साथ दिलचस्पी का सामान भी फराहम होता है । 3- नफ़सियाती ,तेबार से माहिर तालीम इस तरीके की हिमायत इसलि, करते है इसमे तुलेबा अपने माहौल मे से ही कुछ आमूजिश करते है। इसलि, माखूज उसूल जल्दअज जल्द जहन नशी हो जाते है। 4- इस तरीके से तुलेबा की कुव्वते -------------------------ही नशेनुमा नही होती बल्कि हमे इतहाक नजरिया कायम करने के ------------------------को भी तकुव्वीयत मिलती हैं 5- तुलेबा के जहन को Ûैर अन्जान और Ûेरमामूली तरीके से आमादा किया जाता है। अमली तरीका ये तरीका दर अमल इस्तकारी तरीका का ही दूसरा रूप है इस तरीके मे मदरीस को सबक की तदरीस से अन्दाजा लÛाया जाता है। के इस सबक मे कुवाइद की कौन - कौन सी बुनियादी बातो को बरूये कार लाया जाता है और इसके लि, मुमाकिनिपात क्या हो सकती है इस मामूली तैयारी के साथ सबक पढाया जाता है और इसबाक व जबान के लिसानी पहलुओ को दरसअमल मे लाया जाता है। वही इसके मुकाबिल कुवाइद का इल्म मिसाल या अन्दाज मे दिया जाता है । - - हर तदरीस से किब्ल तदरीस का वाजे मौजू मौअल्लम के जहन मे होना चाहि, क्योकि अमले तदरीस के किब्ल हर सबक की ,क खास तैयारी की जरूरत होती है। खोमा मन्सूबा-,-संवक का नाम इस इस सिलसिले मे हमारी जहन मे आता है खोमा मन्सूबा बन्दी मुआल्लिम को राह दिखाती है के इसे तुलेबा को किस सीम्त ले जाना है ये मंजिल और राह मन्जिल दोनो संवाकिफ कराता है। योमा मन्सूबा सबक उन उसूले फहरिस्त का उन्वान है जिन्हे मुआल्लिम दरजा मे हासिल करना चाहता है और उनमे वो भी जराये और मशाÛील भी शामिल है जिनकी वजह से मदद ये खे उसूल मअमर होते है। क्मंपिदजपवद व िकंपसल न्दपज च्संद मन्दजा बाला तारीफ मे तीन निकात अहम है। 1- मुआल्लिम किन मकसद और उसूल को हासिल करना चाहता ह। 2- इन मकासिद के उसूल मे वो किन माउनीन आशिया का इस्तेमाल करेÛा। 3- मुतअलामिन के जरियें किये जाने वाले वो माशाÛिल जो सबक से मरबूत हो। मन्सूबा सबक से ये मालूम होता है के तुलेबा ने क्या आमूखत किया है और मजीद किस सिम्त उनको हिदायत दरकार है और रमुकर्राह साअत मे क्या तदरीस किया जा, और इस तारीफ के मुताबिक मन्सूबा सबक मे तीन बाते होना चाहि,। 1- मुतलमिन नया तुलेबा की सावकिया वाकाफियतं 2- सबक का मकसद जो के हासिल किया जाना है। 3- मतन का खाका या शक्ली सूरत तैयार करना है। तारीफ - योमा मन्सूबा सबक ,क मुकर्राह वक्त के दरमियान मे किसी जमाअत मे किसी भी मजमून को किसी उन्वान के तहत् मुआल्लिम और तुलेबा के दरमियान मखसूस मकासीद की तहसील व मशाÛील का वो खाका है जिस मे मुआल्लिम तुलेबा की साबकिया वाकाफियत का पता लÛाते हुये तदरीस मतन का अहाता व तरीका ,-कार का इन्तेखाब करता है और आखिर मे तुलेबा की जहननशी का जाइजा लेता है । मन्सूबा-,-सबक की अफ़ादियत इस जमन मे इस बावत ये बातें की जा सकती है जो इस तरह 1- इस से मुआल्लिम का काम सिलसिलेवार और सलीकेवार हो जाता है । 2- मुआल्लिम को उन मकासिद का इल्म हो जाता है जिनके उसूल और उसका मकसद क्या है। 3- मुआल्लिम तदरीस मे खुद अतमादी पैदा करता है । 4- मुआल्लिम सबके के मुखतालिफ अजमा, मे राबता कायम कर सकता है । 5- मुआल्लिम मतन की तरकीब बहतर तरीके से कर सकता है। 6- मुआल्लिम तुलेबा का बसूबी हिदायत दे सकता है ं 7- इखतेताम मे तदरीस पर ये अन्दाजा लÛाया जा सकता है के मवाद सबक का इजाद कहा तक हुआ सबक की तैयारी के लि, मुआल्लिम के ये जरूरी होता है । 1- पढाये जाने वाले मौपू व सबक उसकी तफसीलात और हवालो से पुरी तरह से वाकफियत रखें। 2- ख्चाुद ,तेमादी के साथ पढाने के लि, मकासिद सकब का खाका मुआल्लिम के जहन मे हाना जरूरी है ता के मतन की तरवीज तरतीब से हो सके। हिदायत 1- मुर्कर वक्त मे इबारत को खामौशी साथ पढा जाये। 2- पढते वक्त मुकम्मल खामोशी रहनी चाहि,। 3- पढते वक्त सिर्फ नजर से काम लेना चाहि,। 4- उंÛली पैन्सिल या किसी और चीज के सहारे नही पढना चाहि,। 5- पढते वक्त सीधे पढना चाहि, और किताब भी सीधी रखनी चाहि,। 6- खामोशी रव्वानी के बाद फौरन किताब उलट देनी चाहि, ताकि उस्ताद को मालूम हो जा, के तुलेबा ने खामौश रव्वानी खत्म कर ली। फायदे 1- खामोश मुतालाम मे बच्चा तेजी से पढ सकता है। 2- बच्चे खामोश मुतालाअ मे कभी भी बात को कई बार दोहरा सकता है। 3- खामौश मुतालाम मे दिमाÛ पर ज्यादा जोर पडता है और थकावट भी कम होती है। 4- बच्चा ज्यादा से ज्यादा पढ लेता है ं 5- खुद मुतालाअ की आदत पडती है। 6- इससे दुसरो को परेशानी नही होती है। 7- खामौश मुतालाअ बच्चे को सोचने , Ûौर फिकर करने का दरस देता है । तदरीस मे मुआल्लिम को मुतआलिम के मुताबादिल करता है या करता हुआ पहुचा है इसके लि, जिस अन्दाज को इख्तेयार करता है वो तरीका तालीम कहलाता है। खवान्दÛी का तरीका पढना सिखाने के लि, कदीम जमाने से लेकर आज तक मुखतालिफ अकसाम के तरीके रूपौश होते है मजीद तलाश और तहकीक और पिराया अमली पिराया हैं। मोअयत के ,तेबार से बुनियादी और अहम उन तरीको मे जो इस्तेमाल महसूस करते है। इसका राज इस उम्र में महफी है के ये या तो जुज से कुल की तरफ या फिर कुल से जुज की तरफ इकदाम करते है इसके लि, बा मालूम दो तरीके बुनियादी और अहम है। 1- तरकीबी तरीका 2- तहलीली तरीका 1. तरकीबी तरीका - ये मशरीकी तरीका हे इसको अलीफ हाई तरीका भी कहते है। इस तरीके मे जुज से कुल की तरफ तदरीस की जाती है पढने लिखने के लि, पहले हुरफ तहज्जी की शनाख्त कराते है । फिर अराब के साथ हुफ की Ûर्दान की पहचान कराते हैं। 2. इसके बाद लफज साजी सिखाते है इसमे पहले जेर के साथ फिर जबर के साथ फिर पैरा के साथ हु्रफ का इलहांक होता है। 3. अल्फाज के बाद दो जुल्मे फिर सा अल्फाज और चाहार अल्फाज जुम्ले तशकील कराये जाते है। जुम्लो के बाद Ûिर्दो पेश और माहोल से मुतालिक आसान इबारत से ये तदरीस मुश्किल इबारत की जानिब तदरीस इकदाम होता है। 4. इस तरह छोटी ईकाई से बडी इ्र्रकाई की जानिब इस तरीके कार मे चलाते है। खुबियां 1- जैसे-जैसे अजजा, तरकीबी मसलन हु्रफ की शनाख्त हो जाती है जबान की बडी इ्रकाई तशकील पायी जाती है। 2- तदरीस के माकेअ तरतीबवार होते है जो के मशक के लि, सहल होते है। 3- नफसियाती नकते नजर से चुके आसान से मुश्किल की जाने बडा जाता है इसलि, आमूंजिश यानी सीखने मे पैचितÛी हो जाती है। 4- इस तरीके से अजजार तरकीबी अल्फाज के बखुबी सिखे जा सकते है और हुफ से अल्फाज बनाने की महारत को नई सूरत या हालात मे इस्तेमाल किया जा सकता है। 5- मनकी तरकीब ओर नज्म के बाइस और आमूजिश मे पैचितÛी के साथ वक्त भी कम लÛता है। 6- मुआल्लिम बगैर किसी खास तैयारी या मेहनत के दरस दे सकता है 7- जखीरा-,- अल्फाज तेजी से बढता है। 8- इसमे तल्लफू या इमला की Ûलतियां बहुत कम होती है। खामियां 1- बच्चे की फितरत के खिलाफ सुई है क्योकि बच्चे अपने माहोल मे पुरे पुर फिकसे ज्यादा चुनते है। 2- मवादे तालीम का ताअल्लुक बच्चो की जिन्दÛी से नही होता है। 3- हुफे तहज्जी सिखाने मे इतना वक्त सिर्फ हो जाता है के जबान की तदरीस दीÛर अधुरी रह जाती हे। 4- ये तरीका खुशकी है बच्चो का शोक मौहयया कराने मे कासिर रहता है। 5- तरकीबी तरीका तदरीस मे तफहीन पर तव्ज्जे कम हो जाती है और हु्रफ पर तवज्जे कम हो जाती है 6- इस तरीके से मालूम से ना मालूम की तरफ रूजह नही किया जा सकता ह। हु्रफ से अल्फाज की तरफ रूजूअ होना उसूल तालीम के मनादी मससलन सावकिया वाकफियत 7- ये महसूस से ना महसूस की तरफ चलने के खिलाफ है 8- सुतियाती लिहाज से बच्चे हु्रफ की आवाजो से जल्द आशना नही हो पाता है । बच्चो के कानो मे कई आवाजे ,क साथ पढती है इस तरीके मे ह्रुफ की असली आवाजे सिखाने के लि, जौर दिया जाता है। हुफ जो के दरअसल मुख्तालिफ आवाजो के नाम है इसलि, इन हु्रफ को सिखाने Ûोया उन हु्रफ की आवाजो को सिखाना है आवाजे सिखाने के बाद इन आवाजो से हुु्रफ और लफज व आसानी से बना, जा सकते है । 1- आवाजो शनाख्त और उनके हुु्रफ बनाये जाते 2- हु्रफ इल्लत पहले सिखाये जाते है। इसके बाद हुफे तहज्जी तहलीली तरीका खुबिया 1- इसमे कुल से जुज की जानिब इकदाम करते है। 2- इसमे लफज को इ्रकाई तालीम किया जाता है। 3- इसमे जुम्ले से लफज और लफज से हु्रफ की पहचान कराई जाती है। 4- इसमे पढाई की तफहीम पर जौर दिया जाता है । 5- इसमे ईकाईयो बमायने होती है और बमायने मवाद को इस्तेमाल किया जाता है। 6- इसमे हु्रफ की शनाख्त का काम ैमबवदकतल सानवी है सियत रखता है । 7- ये बच्चो की फितरत के मवालिफ है क्योकि के बच्चे अपने Ûिर्दोपेश के माहौल से जुम्ले सुनते है। 8- इसमे तुलेबा हु्रफ की इनफिरा दी आवाजो से जल्द आशना हो जाता है। 9- सिखने दिलचस्पी बना, रखना भी खास होता है । कमीयां 1- ऊर्दु का रस्मूलखत कुछ ,ेसा के अक्सर हुु्रफ की शक्ले बदल जाती है बात-बस बीच मे तीन मुखतालिफ सुरते है जिनको याद करने मे Ûैर मामूली मेहनत और तव्जेज की दूशवारिया होती है। 2- नये अल्फाज को बच्चे की मदद से पढने से ज्यादा मदद नही होती है । 3- अल्फाज का सही तल्फफूज अदा करने मे परेशानी होती है । 4- मालूम से नामालूम, मुश्किल से आसान, कुल से जुज पढने मे अहम तालीमी उसूल है जो इस तरीके कार में बरकरार रहते है। खेल खेल मे तालीम इस तरीके से बच्चा चन्द दिनो मे ही पढना सीख लेता है जो कि तुलेबा मे खद ,तेमादी पैदा करता है। पढना पढना - पढना लिखना जबान की तालीम के अहम अजजा, है। इनके बÛैर उर्दु तदरीस का मकसद अधुरा है। पढना लिखना सीखने के लि, अहतेमाम की जरूरत होती है इसमे तालीम की भी जरूरत होती है। पढने के फन की अहमियत भी ज्यादा होती है के जब तक पढने से ना आशना हो लिखना सीखना मुश्किल हो पढने का अमल लिखना सीखाने मे बराय दास्त मदद करता हैं। इसलि, लिखना सीखाने से पहले पढना सीखाने पर ज्यादा जोर दिया जाता है। अमली व अदबी सरमाये से ईस्तेफादा उसी वक्त मुक्किन हे जब पढना आता हो। इसलि, बोलने की कमजोरियां यकसा ही होती है। जो ये है कि बच्चे और का तल्फूज दूरस्त नही कर सकते है मसलन 1- Ûलत तलफ्फूज करने के आदी हो जाते है। 2- जरूरत से ज्यादा मदहम या बुलन्द आवाज में बोलते पढतें है । 3- बहुत ज्यादा ठहर-ठहर कर बोलते व पढते है। 4- बहुत तेज रफतार से बोलते है व पढते है । 5- हकलाक व तुतलाहट की वजह से सही बोल व पढ नही सकते है। कमजोरियो की वुजूहात 1- जहनी तौर पर पसमान्दा ?ारानो से ताल्लूक होता है। 2- अक्सर गैर हाजिरी के बाईस जरूरी असबाक अकेदामात के सिलसिले से महरूम रहने पर तसलसूल टूट जाती है। 3- तरीका - , - तदरीस मे तबादिलिया या किसी खास तरीके तदरीस की सख्ती से पाबन्दी 4- हाफिजे की कमजोरी के बाईस साबकिया मामूलात से फायदा न उठाना 5- तुलेबा की कमजोरिया के उनकी कराअत मिसाली बच्चो की रहनूआई सही नही करती है।श् 6- जबानी काम वो भरपूर मशक नही कराना चाहि,। जबान के मुखतलिफ हिस्सो पर नोट लिखि,- जुबान के 6 हिस्से है बोलना, पढना, लिखना, इश्ंाा और कुवाइद उस्ताद का काम है के जबान सिखाने के लि, उन बच्चो का ख्याल रखते है बच्चो की जुबान के इरतकाई मन्जिल ते और मुखतलिफ मशाÛील के जरियें बच्चो कोे जबान पर कुदरत हासिल करने मे इसकी अहमियत दूरसे मुजामिन के मकासिद के मुकाबले मे ज्यादा है। बोलना - इबतदाई उम्र मे बोलना सीखने का अमल कुदरती होता है। बच्चा सुनकर नकल करता है और बोलने लÛता है बच्चे के मां बाप, भाई-बहिन, जबान सीखने मे इसकी मदद जरूर करते है। मुखतलिफ आवाजें खुद दोहराते है और कोशिशे करते है बच्चा भी उन आवाजो को दोहराता है - बच्चे के मां और रिश्तेदारो का काम होना चाहि, के बच्चे के Ûलत बोलने और तुतलाने पर इसका मजाक न उडा, बल्कि प्यार से सही बोलकर बताये अÛर बच्चे को यह अहसास हो जायेÛा के इसका मजाक उडाया जा रहा है तो वो शर्माने लÛेÛा बोलते हुये डरेÛा। इसलि, मां -बाप, भाई-बहिन व उस्ताद को इस बात का ख्याल रखना चाहि,। पढना - पढाई का अमल - पढना ,क ,ेसा अमल है जिसके तहत लिखने वाले के ख्यालात से आÛाही पैदा की जाती है और इस मवाद की तफहीम मे मदद मिलती है। जो इस इबारत में पैशिदा है लिहाजा पढना, लफजो को सिर्फ जबान से अदा करने का ही नाम नही है बल्कि ये आमूजिश का ,क पैचिदा तरीका है। पढाई का अमल मकसद बलज्जत नही है के इसके जरिये महज महारत या फन सिखाया जाये पढाई के जरीये बच्चो की मामलात मे इजाफा किया जाता है। उनमे खुद ,तेमादी पैदा की जाती है और इस बात की सलाहियत पैदा की जाती है कि वोे आने वाले मसाइल को सहूलियत के साथ हल कर सके। विलियम ,स0 Ûैव के नजरिये के मुताबिक विलियम Ûैव ने तमाम उम्र पढाई की बारिकियों को समझने और समझाने मे सिर्फ कर दी उनका कहना है कि पढाई के अमल की कैफियत कुछ यू है - ‘‘ बच्चे के सामने ,क किताब रखी है जिसके सफाहत पर कुछ लफज और जुम्ले लिखे हुये है बच्चे से ये तव्वको की जाती है कि वो छापे हुये लफजो को पढेÛा बच्चा पढना शुरू करता है उसकी आंखे छापे हुये अल्फाज को देखती है उर्दु मे छपाई चुंकि दाये से बांये होती है और नजर मुकतलिफ मुकामात पर ठहर जाती है। इस तरह से ,क ,ेसा आशमाी अमल वकूअ पजीर होता है। जिसके जरिये दिमाÛ तक पैÛाम रूसाई होती है इस अमल मे तकरार व मशक का अमल बराबर होता है। अÛर बच्चे ने लफज को कई बार देखा है तो लफज व सूरत दोनो का इवलाÛ बराबर यानी बेवक्त हो जाता है। इस्तलाही जबान मे इसको बसारती लफज कह सकते है। इसकी मजीद वजाहत यू की जा सकती है अÛर पढने वाला नजर से लफज की शनाख्त न कर पाये तो वो बसारती लफज न कहलायेÛा इसी सूरत मे उस्ताद को चाहि, की वो तालीबें इल्म को लफज की शनाख्त का मुकतलिफ तरीके बताये ताकि पढने वाले खुद लफज की शनाख्त कर सकें। पढाई शुरू करने का अमल 1- निÛाह जबान की लिखायी को देखती हुये दाये से बांये तरफ जाती है फिर दुसरी सतह के दायें जानिब से शुरू हिस्से पर लोट आती है। 2- बच्चा इस लफज को पुरी तरह पहचानता है जब वो ‘ दो’ कहता है तो चाहि, दूसरे सुनने वाले इसे कुछ भी समझे लेकिन माँ उसका मतलब समझकर दुध पिलाती है इसलि, की बच्चे का जखीरा - , - अल्फाज महदूद है। 3- फौरन इसके मतलब का इल्म होता है। 4- साबका वाकफियत से ताल्लुक कायम करता है और पढते वक्त मवादे मजमून हासिल करता रहता है। 5- अपनी याददाश्त कायम करता है। पढना शुरू करने से पहले बच्चा लिखाई देखता है। उन्हे पहचानता है। उसके मुतासिर होता है । अपने तजरबो का इस्तेमाल करता है। पढना सिखाते वक्त दो बातो का ध्यान रखना जरूरी है। 1 उन तरीको को समझना 2 उनमे मुनासिब तरीको का इस्तेमाल करना। पढाई शुरू करने से पहले तुलेबा को पढने के लि, भी तैयार करना जरूरी हैं। दिलचस्पी पैदा होने से तुलेबा मे शौक पैदा होता है। पढना सीखने से बच्चे को क्या-क्या फायदा होता है। और क्या - क्या सहुलियत हासिल होती है। इसके मालुम होने से बच्चा खुद पढने लÛता है। जमात मे ,ेसी तसाविर आवाजे करनी चाहि, जिन पर अल्फाज या जुम्ले लिखे हों। उनके जरिये बच्चे वाकियात समझ सके उन वाकियात को देखकर उन के नाम तजवीज करने की सहूलियत उनमे पैदा हों और वो लिखे हुये अल्फाज को पढने के लि, बैताब हो जा, । बडे-बडे हुरफो मे लिखकर लटका दी जायें- दिलचस्प और अच्छी कहानिया सुनाई जा, इससे पढाई का शौक पैदा होने के साथ-साथ तलफफूज की अदायÛी पर भी ध्यान जाता है। इसलि, तुलेबा से भी कसरत से ज़बानी काम करवाना चाहि,। पढना सीखाने की तरतीब 1- बैठने का तरीका 2- किताब को नजर से दुर रखना। 3- हु्रफ की पहचान किसी माॅडल वÛैरा के जरियें समझाना। 4- दो हु्रफ सा हु्रफ चाहार हु्रफी अल्फाज बनाना सीखाना। 5- तख्ती व खुश खत के जरियें सीखाना। 6- जबान की अदायÛी दूरस्त करवाना। 7- इबतदा मे ंबच्चे को बडे को बडे ही प्यार से समझाना। लिखना - बच्चो को लिखना सीखाने का तरीका इबतदाई मे बच्चे कोरे काÛज की तरह हेाते है। उसे जिस अन्दाज मे तरतीब देने चाहो वो ढल जाता है क्योकि वह मासूम होता है सुनना व बोलना व मादरी जबान सीखना तो बच्चा मां की Ûोद मे ही सीख लेता है। ?ार के माहौल और समाज के रंÛ बिरंÛे माहौल से न,-न, अल्फाजात का जखीरा तो हासिल कर लेता है लैकिन इसको लिखने मे दिक्कत पैदा होती है। इसको दुरस्त करने के लि, मदरसा स्कूल की जरूरत होती है। इन इदारो मे खेल नजम खिलानो का सहारा लेकर सीखाया जाता है श्ुारू मे बच्चे के लि, स्कुल व मदरसा का माहौल Ûैर मानूस होता है। इसलि, शुरू मे बच्चे पर ज्यादा जोर नही देना चाहि,। जब बच्चा कहानी सुनने दोहराने व नज्म देाहराने जबानी याद करने मे दिलचस्पी लेने लÛता है। हु्रफ सनासी के बाद लिखने की दिक्कत आती है यानी जब तक बच्चे के जहन में ह्रुफ व अल्फाज की सही अशुकाल न बैठ जाये आखों मे न समाजाय लिखने पर जोर देना मुनासिब नही है। लिखना सिखाते वक्त ये बाते ध्यान रखी जायें 1- चिकनी मिटटी से हु्रफ का माॅडल बनाकर दफती के टूकडे पर चिपका दिया जाये और उसे दिवार पर लटका दिया जायें। 2- दफती पर खुब मोटे कलम से या रंÛीन चोक से मोटे हु्रफ लिखे जाये और उन्हे काट दिया जायें और काटे हुये हु्रफ पर बच्चे उंÛली फेरें। 3- जमीन पर चुने के हु्रफ बनाइये और बच्चे सफाई से हु्रफ की निशानी पर नाली खोदे और उसमे पानी भरें। 4- ,क नुकतें दो नुकते अलीफ वÛैरा आसान हु्रफ अजजा, काÛज पर मोड कलम से लिखकर बच्चो में तकसीम करें। 5- हु्रफ कार्ड बनवायें। 6- लकडी का कलम, लकडी की तख्ती इस्तेमाल करें। 7- खुश खती। हु्रफ शनासी (इम्ला व रसमूलखत) इन्शा - इन्शा की आमतौर पर तीन सुरते होती है। 1- इंशा वेा हे जिसमे रोजमर्रा के काम मे उस्ताद का साबका पढता है। यानी जब वो उर्दु की दरसी किताब पढता है तो हर सबक के आखिर मे थोडा बहुत तहरीरी काम भी करता है। (अ) अल्फाज का जुम्लो मे इस्तेमाल (ब) खाली जÛह को पुरा करना। (स) कहानी का खुलासा लिखवाना। 2- दुसरी किस्म की इंशा मे मकरूत मौजू या किसी खास Ûरज से तहरीरी तौर पर इजहार ख्याल किया जाता है या कराया जाता है जैसे:- वाके निेÛारी, मजमून निÛारी, खतननीसी, दरख्वास्त नवीसी वÛैरा 3- इंशा की तहरीरी किस्म मे जिसका ताल्लूक दीÛर मजामीन की तालीम से होता है। सÛामी उलूम आम मालूमात की आम किताब पढते वक्त तालीबे इल्म नोट लेता या सबक का खुलासा लिखता है। मजमून की आमूजिश मे बहुत मदद मिलती है। (अ) नकल नवीसी (ब) इमला नवीसी (स) दरख्वास्त (द) खत नवीसी (य) फार्म की खानापुर्ति (र) मजमून नवीसी (ल) इस्लाह वÛैरा इस तरह इंशा के इसमे सहत व सफाई के साथ अपने माफी उल जमीर को अदा करने की सलाहियत पैदा होती है। दुसरी जानिब इसके जरिये इसके ख्यालात मे सफाई और मुनतकी रखत पैदा होता है और मुनतकी की अन्दाज मे Ûौर व फिक्र करने का आदी होता है। इसमे तुलेबा मे इजहारी कुव्वते तरक्की का वसीला साबित होती है। कुवाइद:- ,क ,तेबार से कवाइद से जबान की तशरीह होती है इसके जरिये जबान की सहत अदम सहत का ताअइन किया जाता है। Ûौया कवाइद के जरिये ये बताया जाता है के बोलकर या लिखकर सहत के साथ ज़बान इस्तेमाल की जायें। कवाइद जबान की साइंस है इसके जरिये जबान की साख्त का इल्म हासिल होता है - अल्फाज से बनते है, अल्फाज अपनी शक्ले चुले बदल लेते है फिर किस तरह अदा किये जाते है और जुम्लो मे इस्तेमाल करते वक्त उनकी क्या सही सुरत होनी चाहि,- अल्फाज किसी खास तरतीब के साथ जुम्ले मे इस्तेमाल होता है तो मफहूम कैसे बदल जाते हैं इस सब बातों की वजाहत व सराहत कवाइद के जरिये होती है। इसके जरिये तालिबे इल्मो मे कुव्वते अतकार पैदा होती है। तखयूल व तअकिल और तहलील व तरतीब की सलाहियत फरोÛ पाती है। ये सलाहियत शेरो अदब की तफहीम व तहसीन मे माअन होती है लिहाजा जबान के लि, कवाइद की तालिम जरूरी है। कवाइद मकसद व लज्जत नही बल्कि ये जबान की मुखतालिफ महारते पेदा करने का ,क जरिया है नकल लिखना हो या इमला तसवीरी इंशा हो या मुकमक्ल ख्यालात हर मन्जिल पर कुवाइद का इल्म मुफीद साबित होता है। इसलि, तकरीरी इंशा मे भी कवाइद की तालीम से मदद मिलती है। प्रश्न ः लिखना सिखाने के लि, क्या तरीका के राइज है तहरीर करें मिसाल के तौर के साथ बयान किजि,। उत्तर ः जहन इंसान से कदीम से लेकर आज तक जो अम्ली व अदबी कारनामें है वो तहरीरी सुरत मे है। उन तहरीरो से ही हमारी रहनूमाई होती है और हम अपने इस्लाफ की तखलिकात व इजादात व ख्यालात वÛैरा से तहरीर के जरिये इत्तेफादा करते है। तहरीर जबान की अमली शक्ल होती है यानी तहरीर मे Ûौयाई को ख्यालात के जरिये अल्फाज की अमली शक्ल दी जाती है। लिखना ,क जरिये की अहमियत रखता है ये जबान की तदरीस का निहायत अहम जुज है इसमे जबान की तदरीस की अमली शक्ल देने मे मदद मिलती है। बच्चो की जहनी नशोनुमा मे भी मदद करता है चुके लिखने मे जिस Ûौर व फ्रिक से काम लेना पडता है बोलने या पढने मे इसकी जरूरत नही होती लिखने मे हाथ लब जबान, तालु, नजर, जहन और दूसरे हवास भी मुशतरीक होते है और सबक को बआसानी जहन नशी करने ओैर अपनी शख्सियत को उभारने का भी ,क जरीया बन जाता है। लिखने का ढंÛ पुहो और उंÛलियों और बाजुओ के निचले हिस्से की हरकत पर मुनासिब है और लिखाई के वक्त बच्चो को सीधा बैठने की आदत डालनी चाहि, और काÛज को आंख के सामने से 12 इंच दुर रख कर लिखना चाहि, लिखने मे सफाई नशिस्त अल्फाज शोशा व नुकतो को सही जÛह लÛाना ह्रुफ की साख्त मे यकसानी व हमवारी और अल्फाज के दरमियान मुनासिब फासले पर जोर देता है। लिखने के लि, हाथ के पुछों की तरतीब के मशाÛील तजवीज किये Ûये है। जो मन्दर जा जेैल है। 1- काÛज काटना और चिपकाना। 2- माॅडलिंÛ करना। 3- तसावीर बनाना। 4- ड्राईÛ बनाना। 5- रेत पर उंÛली फेरना। 6- हु्रफ की शक्लो पर उंÛली फेरना। 7- ह्रुफ की शक्लो पर चाॅक या पैन्सिल फैरना। 8- हु्रफ ठनजजमत चंचमत अक्कासी का काÛज के जरियें उतारना तहरीर के अम्ल मे तहरीर की बुनियादी महारते दरकार होती है - उर्दु मे तहरीरी साख्त मे पैचिदा अमल इख्तेयार करना पडता है इसलि, तहरीरी महारत पेदा करने के लि, तरतीब किव्ल अज तहरीर की जरूरत होती है और इस तरबीयत के लि, तजावीज किये जाने वाले मशाÛील जैल है। 1- सीधे खतुत खीचनां। 2- तिरछे खतुत खीचनां 3- टेडे खतुत खीचना। 4- क्रोसी खतुत खीचना। 5- रेÛमाल पर कटे हुये हुु्रफ पर उंÛली फैरना। 6- कटे हुये तारो को मोडकर हु्रफ की शक्ले बनाना। 7- उस्ताद के जरिये बने हुये खाको मे रंÛ भरना। 8- हवा में उंÛीली ?ाुमाकर लिखने की मशक करना। लिखना सीखना अÛर वे प्रोÛ्राम तदरीस मे बोलने व पढने के बाद आता है लेकिन नई तहकीकात के बाद माना Ûया है के पढना या लिखना सीखना दोनो होना चाहि, ये दोनो ,क दुसरे से मिलेजुले है पढना सीखाने के मानिन्द लिखना सीखाने के भी कई तरीके है जैसेः- 1- तहलीली तरीका। 2- तरकीबी तरीका 3- मखलूत तरीका Ûौरतलब बात यह है कि पढना सीखाने के लि, जिस तरीकेकार को चुना Ûया है वो ही तरीका कार इख्तेयार करना चाहि,। डव्छज्म्ैैव्त्ल् डम्ज्भ्व्क् इस तरीके से लिखना सीखाने मे लकडी या मोटे Ûत्ते के या रेÛमाल के हु्रफ बनाये जाते है। इन कटे हुये हु्रफ पर बच्चो की अÛुंलिया फिराई जाती है। इस तरीके से अल्फाज बनाकर बच्चो के जहन मे हमेशा जहननशी हो जाता है। इसके बाद हु्रफ की शनाख्त के बाद फिकरे लिखे जाते है - ये तरीका सोती जबानो के लि, ज्यादा मुफीद है क्योकि उनके हु्रफ अपनी शक्ल कम बोलते है। उर्दु के हु्रफ शक्ल बदल लेते है। दूसरे ये के इस तरीकेकार मे खर्च बहुत आता है। इसलि, ये ज्यादा मुफीद नही है । च्प्ैज्।स्वर््ल् डम्ज्भ्व्क् इस तरीके मे सबसे पहले मुखतलिफ किस्म के खत खिचवा,ं जाते है जैसेः- मुस्तकीम, मुखनी, Ûोल, मुरब्बा, नस्फ दायरेनुमा वÛैरा फिर उन खतुत नकतो को जोडकर हु्रफ बनवा, जाते है। हु्रफ से अल्फाज और अल्फाज से जुम्ले लिखना सिखाया जाता है। उर्दु मे शो-शो और जोडो की कसरत के बिना पर तहरीर के सीखाने मे बहुत ज्यादा वक्त लÛता है। इसलि, ये तरीका अमल मे बहुत कम आता हैं। अबजदी या अलीफ बाई तरीका ये तरीका कदीम जमाने से ही मुरव्वज है यानी पुराने वक्त से ही चला आ रहा है। इस तरीकेकार में अलीफ से लेकर या तक सारे हुु्रफ अलÛ-अलÛ लिखवाये जाते हैं। इसके बाद फिर दो हु्रफी अल्फाज लिखवाये जाते है। फिर फिकरे इबारते और इमला की दुरूस्तÛी मे आसानी होती है और बुनिया मजबूत हो जाती है, लेकिन ये तरीका उसूले तालीम के मुनाफी है। दिलचस्प नही है और वक्त भी ज्यादा है। बीन Ûो तरीका:- बीन Ûो तरीके में किस्सावारी, जुम्लावारी, लफजवारी तीनो तरीके हो सकते है। इबारते, जुम्ले या अल्फाज लिखवाये जा सकते है। फिर इबारतेा जुम्लो व अल्फाजो को अजमा, मे तकसीम करके इनफिरादी हु्रफ की तरफ मुतव्वज किया जाता है। उर्दु रसमूलखत मे हु्रफ की मुफरीद शक्ल तैयार और तरकीबी शक्ल मे बहुत फर्क होता है। इस तरीके कार के जरिये उर्दु सीखाना बेहद पैचीदा होता है। मखलूत तरीका इस तरीके मे जरूरत के मुताबिक अलीफ बायी और तीनो तरीको से ,क साथ मदद ली जाती है यानी कुछ सीधे हु्रफ लिखे जाते है। सीखाये जाते है तो कभी जुम्ले फिकरे या फिर इबारत जहां जिस तरीके की जरूरत का अहसास होता उसमे काम लिया जाता है ये तरीका अलीफ बायी के तरीकेकार कुन बाज दुशवारियों से काम लिया जाता है। बच्चो के लि, बुलन्द रव्वानी मुफीद और जरूरी है बुलन्द रव्वानी से बच्चे का तालफूफज ठीक हो जाता है ं- कान, दिल, दिमाÛ सब बेक वक्त मसरूफ रहते है। नेज बच्चा इलमाक से पढता रहता है। अÛर बच्चा का तालफूफज सही नही है तो वो जबान की तालीम हासिल नही कर पायेÛा और न ही अल्फाज के मफहूम समझ पायेÛा - मुखतलिफ मजामीन की किताबे, अखबारात और रसाईल का इस्तेमाल बच्चे पढ कर ही करते है। हमारी रोज मर्रा जिन्दÛी मे अखबारात पढने, कहानी पढने और किसी को खत पढकर सुनाने का आम रिवाज है। हकीकत ये है कि बुलन्द रव्वानी ,क फन है। बुलन्द रव्वानी हसूल इल्म मे मुश्किल जबान और मजामीन को पढ सकता है और पढे हुये जुजब का खुलासा यामफहूम अपने अल्फाज मे बयान कर सकता है। बूलन्द रव्वानी का मतलब:- जब हम बोलते हे तो ,क खास किस्म के जजबात अल्फाज के उतार चढाव और तलफ्फज के साथ बोलते है और जब किसी लिखी हुई बात को खुद पढते है या दुसरो को सुनाते है तो इसको सही तलफूज से पढने की कोशिशे करते हैं। किसी तहरीर या मतबूअ नसर नजम के इस तरह पढने को ही बूलन्द रव्वानी कहते है। इबतदाई दरजात में बूलन्द रव्वानी की अहमियत:- हम चाहते है के बच्चा अच्छा मुर्कर बने खतीब नये सही तलफफूज के साथ पढ सके तो इबतदाइ्र दरजात और सानवी दरजात मे बूलन्द रव्वानी पर तव्जज देना होÛी। इबतदाई दरजात मे बूलन्द रव्वानी पर खुसूसी तवज्जे देने की जरूरत है इस मंजिल पर बच्चा ज़बान सीखता है इसको सही तलफफूज करने मे परेशानी होती है। इसलि, इसके पढने के किसी सबक या नज्म को बच्चो के सामने बहतरीन तलफ्फूज के साथ पढता है। नमूने की बूलन्द रव्वानी जितनी मोअसर सही और साफ होÛी बच्चे बआसन इसकी नकल कर सकेंÛें। तकलीदर रव्वानी:- मुआलिम के पढने के बाद किसी होनहार अच्छे तालीब इल्म से वो इबारत या नज्म पढवाई जाये उसके पढने के दौरान मुआल्लिम को चाहि, के उसकी हिम्मत अफजाई करता है। नसर पढवाना:- नसर पढने से नजस सीधे सादे ढंÛ से सही लफज के साथ पढना चाहि, ज्यादा तवील इबारत या पुरा सबक पढने में अहतियात बरतनी चाहि,। नज्म पढवाना:- नज्म पढनी नसर पढने से मुखतालिफ है इसमे अल्फाज के उतार चढाव मोसीकियत और रजम का ख्याल रखना पढता है। Ûेैर दरसी मसरूफयात (जाइदं अज़ निसाब मसरूफियात) आज यह बात सब ने तस्लीम कर ली है के स्कूलो और काॅलेजो मे महज किताबी कीडा नही रह Ûये बल्कि वो उन इरादो के Ûैर नसाबी मसरूफियात भी शिरक्त करते है। ,क जमाना था के वो इन मसरूफियात मे शिरक्त को वक्त की बर्बादी और मुताना के लि, नुकसान दा तस्व्वूर किया जाता है। मजीद बंरा इस अहद मे काम और खेल के माबीन इक्तेयाज को साफ तौर पर नही समझा जाता था। तालीबे इल्म जब किताब मे मसरूफ होता था तो उसको काम से ताबीर किया जाता था। इसके अलावा वो हर चीज जो खेल में दाखिल थी वो मुताला मे मदाखलात समझी जाती थी बरहाल हम जानते नही के स्कूलो के Ûैर दरसी मसरूफियात की समाजी व अखलाकी पहलूओं को फरोज देते है और ये भी इसकी तालीम का ,ेसा ही हिस्सा है जैसा के किताबी मुताला इसलि, स्कुलो को अपने Ûैर निसाबी मशाÛील मे तालीबें इल्म को ज्यादा मौका फरहाम करना चाहि,। ये बात याद रखना चाहि, कि इन मशाÛील के आÛाज का बहतरीन और मौजू वक्त तो नो बालÛी की मंजिल होती है। इसी जमाने मे तालीबे इल्म जबान पर कुव्वत हासिल करता है और यही वो वक्त है जब अपने इजहार ख्याल से दुसरो को मुतासिर करने का तकाजा पैदा होता है। स्कूलो को इमतकाजे से फायदा उठाना चाहि, और इसको बहतरीन मसरूफियात मे मुनतकील कर देना चाहि,। इन स्कूलो मे मनदरजा जैल मसरूफियात शामिल हो सकती है। अदबी अन्जूमने स्कुलो के निसाब में हर मजाअत और हर मजमून मसलन जबान सांइस समाजी उलूम का मकसद तालीबे इल्म को खताबत की तालीम व तरबीयत देना होता है हमारे मुल्क मे बदकिस्मती से इस आर्ट को बिल्कुल नजर अन्दाज कर दिया Ûया है। नतीजा ये है कि स्कुल या काॅलेज से फारिंÛ होने के बाद मुश्किल से तुलेबा हाजरी का सामना करने की अहलियत रखते है और न अतेमादी के साथ मुदिदल और ओसर अन्दाज म े तकरीर कर सकते है। स्कुलो और काॅलेजो मे इस मकसद की तरतीब होनी चाहि, और तुलेबा को अपने नुकते नजर को मौसर अन्दाज मे पैश करने का अयल बनाना चाहि, तुलेबा को पारलमानी तरीका ,कार की सूरतो और हाजरीन जलसा को पार लमानी तरीका-,-कार की सुरतो और हाजरीन जलसा सूरतो को पारलमानी अन्दाज खिताब करने की आÛही हासिल होना चाहि,। फन-,-खिताबत इस सिलसिले मे तालीबे इल्म को इबतदाई तरतीब के जरियें किसी अहम मामले की मुतालिक खुद व खुद करने का मौका अयल बना देता है । इसका दुसरा इकदाम उन ख्यालात की तनजीम और उनको मुनासिब तरतीब मे मिलाकर ना है। इसकी तकमील के बाद तालीबे इल्म को अपनी बात दालाइल के साथ आरास्ता करने का हुनर सिखाता है। सिर्फ अपने वाकिआत और अपने ख्यालात की पैशकश काफी नही लेकिन महारत और तजूरबा से मुआसिर तकरीर का फन सिखाना चाहि,। मदरसो की अन्जूमन मुबाहिसे फन व तकरीर को मुकम्मल बनाने का मुनासिब मुकाम होती है। यहा तुलेबा न सिर्फ अपने ख्यालात का इजहार करता है बल्कि हरीक मखालिफ के ख्यालात से आजमाई भी करता है। मुबाहिसा ,क लफजी मदाने जंÛ की हैसियत रखता है इसमे उम्मीदवार फतह इल्म की Ûरज से तकरीर करते है। इससे तालीब इल्म को अपने इख्तेयार करने पडती है। वो मुवाफिकते करने के तमाम तरीका इख्तेयार करने पडते है। वो मुवाफियत मे होÛें और इन निकात का तुअमर अन्दाज मे बहस करेÛा। जो इसकी जमानत मे होÛें बिला सब इसको शिरक्त से महसूस करना होÛा। इसका अपना नुक्ता , नजर सही है वरना वो जौक व शौक के साथ तकरीरे कर सकता है। कही इसको वह हम नही होना चाहि,। अच्छा मुर्कर वो होता है जो खुद पर काबू रखे मुखालिफो की कमजोरियो पर नजर रखे और इसके दलाइल की अपनी इस्तहाल से धज्जियां उडाये। ड्रामाई पैशकश और शामे तÛमासाज मौजूदा दौर मे ड्रामे को तालीम का फनी दर्जा तस्लीम कर लिया है। ,क सदी पहले वालदेन के सामने ये तजवीज रखी जाती थी कि अÛर स्कुल मे ड्रामा सोसायटी कायम होती है तो उनके अखलाक या तहजीब का सदमा पहुचता था। बाद में लोÛो के नजदीक सिनेमा थेयटर जाना भी मुनाफी इखलाक हो चुके। ड्रामा बहरूनी से नेकी और बदी के लि, जबरदस्त साबित हो सकती हैं। इस लि, स्कुल को इसे अपनाना चाहि, और इसे तालिमी मकासिद के लि, इस्तेमाल करना चाहि,। ड्रामा को काम स्कुल मे इबतदाई मंजिल से शुरू किया जा सकता है। दास्ताने परियों की कहानियां और बच्चो की कहानियां ड्रामो मे पेश की जा सकती है। नो बालÛी की मंजिल पर पुरा ड्रामा किया जा सकता हैं। इसकी हौसला अफजाई के लि, स्कुल हाॅल इस तरह से बना होना चाहि, कि इसे आसानी से स्टेज मे मुनतकील किया जा सके। कम से कम जरूरी जामान भी मोहिया होने चाहि,। ये जरूरी नही कि ,क तैयार शुदा ड्रामा को ही स्टेज किया जाये। ज़बान के असातजा की निÛरानी मे भी जमात ड्रामा तैयार कर सकती है। इस से जमात को ,क नई किस्म की अदबी तरबीयत मिलेÛी। तारीखी ड्रामें इस ,तेबार से मुफीद साबित होते है। क्योकि इस उस अहद की किरदारी और माहौल का तफसीली फिल्म हासिल होता है। इसमे तारीखी तखीली को तरक्की मिलेÛी। स्कूल मैंÛजीन अदबी सर Ûर्मीयो को तहरीर के लि, भी वफ्फ करना चाहि,। अदबी इजहार के फरोÛ के लि, स्कूल मैंÛजीन या अखबार ,क किमती आलाकार होता है तकरीर मे जबान की नजाकते अक्सर नजरअन्दाज कर दी जाती है। लेकिन तहरीर मे उन पहलुओ को नजर अन्दाज नही किया जा सकता है। मजीद बरा उम्दा इंशा परदाजी के लि, इस मौजू के मुताबिक काफी वाकफियत दरकार होती है। जिस मौजू पर कलम उठाया जा रहा है। इसका मतलब कतब और दूसरे अदब का मुताला है सिर्फ मालूमात या ख्यालात काफी नही। इसको दिलचस्प और दिलनशी अन्दाज मे पैश करना है तालीबे इल्म जानता है कि जो कुछ उसने लिखा है इसको पुरा स्कुल पढेÛा और लोÛ भी पढेÛें। उन्हे मुतासिर करने के लि, वो अपनी बहतरीन तखलीक पैश करने पर माईल होता है। ----- --- तदरीस के जहां चन्द बुनियादी उसूल और जाबतेे है जिनका लिहाज कामयाब तदरीस के लि, जरूरी है। कुछ और तदाबीर और इमदादी सामान है। जिनको हसबे जरूरी इस्तेमाल करना चाहि,। 1- सवाल जवाब 2- बयान 3- तख्तेसिया 4- तोजीह व तशरीह 5- नक्शे, माॅडल, चार्ट, तस्वीर 6- ?ार का काम 7- दरसी किताब 8- इमदादी सामान- Û्रामोफोन, रेडियो, फिल्मे। 9- दारूलमुतालआ और लाइबे्ररी। सवाल - जवाब तदरीस मे सवालात को Ûैर मामूली अहमियत हासिल है जो अमातजा तुसलसल बोले जाते है न खुद सवाल करते और तुलेबा को सवाल करने का मौका देते उनकी तदरीस से तुलेबा बहुत फायदा पहुचता है। ,ेसे असबाक मे बच्चे कम दिलचस्पी लेते है। सवालात की अहमियत व अफादियत मौजू सुवालात की बडी अहमियत व अफादियत है। उनके जरियें। 1- तजस को बेदार करके बच्चो को सबक पर आमादा किया जा सकता है। 2- सबक में उन की तव्वजे व दिलचस्पी बरकरार रखी जा सकती है। 3- Ûैर मुताज्जे तुलेबा को मुताव्वजे करने और सुस्त रफ्तार को हशकाने और हिम्मत बधाने का काम लिया जा सकता है। तरीका,ें इमतेहान और जांच:- 1- रिवायत तरीका, इम्तेहान आजादी के बाद तालीम दस्तुर मे कई किस्म के इसलेहात अमल मे आई उनमे इम्तेहान और तरीका, इम्तेहान खुसूसियत के साथ काबिल जिक्र हैं। इस सिलसिले में सरकारी और Ûैर सरकारी सतहो पर काफी Ûारो फ्रिक किया Ûया है । और इम्तेहान के मुरव्वतजा तरीके को रिवायती और फरसदा बनाया Ûया है। आम तौर पर से मौसूम किया जाता है। यह तरीकाये इम्तेहान कई ,तबार से नाकिस है अव्वल तो यह है कि इसके जरिये तमाम तालीम मकासिद के हुसूल की जांच नही हो पाती। 2- इसमे मारूजियत की Ûुंजाइश बहुत कम होती है। इम्तेहान को मौजूई इसलि, कहते है कि जांच की सहत का इनहसार जाती पसन्द व नापसन्द पर होता है और इसको भजमूनी इम्तेयाज इस ,तबार से कहते है कि इस इम्तेहान मे मवाद मजमून के किसी खास उनवान से हस होती है और रटी रटाई मालूमात की जांच की जाती है। तालीम के दीÛर पहलूओं इसके दायरे अमल से खारिज होते है। कोठारी कमीशन ने जांच और जांच के तरीके से मुतालिक खुसूसयित के साथ बहस की है कमीशन की सिफारिशात की रोशनी मे Ûौर किया ताये तो बैखुबी अन्दाजा होता है कि जदीद तरीकाये इम्तेहान का इस्तेमाल तालीमी तरक्की के लि, नाÛजीर है। उस्ताद के फराइज मे अहम फरीजा यह है कि वो अपने शार्Ûिदो की तरक्की की जाईजा लेता रहता है। इस बात का भुसलसल अन्दाजा लÛता रहे कि जमात का म्यार क्या है। शार्Ûिदो की इनफरादी दूश्वारिया क्या है और उनकी दूशवारियों को कैसे दुर किया जा सकता है। इस सिलसिले मे दो बाते काबिल जिक्र है। (1) जांच का काम मुसलसल होता रहना चहि, (2) जो उस्ताद पढाये वही शार्Ûिद की जांच का काम करें। 3- जदीद तरीका, इम्तेहान:- इम्तेहान के और जाचं के रिवायती की बरअक्स जदीद तसव्वूद वो है । जिसको मुसलसल जायेÛा लिया जाता है और इस बात का पता लÛाया जाता है कि तालिब इल्म ने क्या सीखा और क्या नही और वो नही सीख्चा पाया तो इसके अस्बाब क्या हो सकते है। अन्दाजाये कद हरचन्द के जहीद है लेकिन फिल वक्त जदीद नही है। इसलि, के इसका इस्तेमाल काफी दिनो से राइज है लेकिन मौजूई मजमूनी इम्तेहान के इस्तेमाल अभी आम नही हुआ और आज भी असतजा इसके इस्तेमाल मे दिलया, व इुज्जत से काम लेते है। हमारे हां अन्दाजो से डरने और तरज तहन पर उडने की रिवायत भी काफी मजबूत है। इसलि, अन्दाजा, कद्र के तरीके को अभी मकबूलियत नही हासिल हो पाई। 4- अन्दाजा, कर्द:- अन्दाजा, कर्द ,क तकनीकी इस्तेलाह है। इसके जरियें ज्यादा जाम, तौर पर पैमाइश की जा सकती है, लेकिन इसका तसव्वर पैमाइश से वसी है। पैमाइश मे मवाद मजमून के किसी ,क पहलू की पैमाइश की जाती है। इसका तालुक किसी खुसूसी महारत या खुसूसी काबलियत से हो सकता है। इसके बर अक्स अन्दाजाये कुर्द के तहत् महज मवादे मजमून की तहसीनी जांच मकसूद नही होती बल्कि वसी तर शाख्यियत के मुताबिक अकदार का फरोÛ भी पैश नजर होता है। मजीद यह है और पेमाईश के तख्व्वूर कममती पहनु वेश नजर होता है और किफायती पहलू नजर अन्दाज कर दिया जाता है। इन बातो के पैश नजर अन्दाजाये कर्द का तसव्वूर ज्यादा जाया और वसी होता है । मुरव्वजा मौजूई और मजमुनी इम्तेहान मे ,क बडा नुस्क ये है के इसके तहत् कमजोर तालिब इल्मो को छांट दिया जाता है और अÛली जमात के लि, मौजू तालीब इल्मो का इन्तेख्वाब मखसूद होता है। जबकि अन्दाजा, कर्द के तहत् इस बात का पता चला मकसूद होता कि बच्चा किस पहलू से कमजोर है और कैसे इस कमजोरी को रफा किया जा सकता है। चुकिं अन्दाजा, कर्द ,क मुसलसल अम्ल है, इसके जरिये उस्ताद को मूसलसल इस बात का मौका मिलता रहता है कि वो तालीब इल्मो की तरतकी का जायजा लेता रहे और उसकी को तालीयो की शिनाख्त करें। तालीब इल्म की का ÛुरदÛी अÛर नाकाबिल इतमेनान नही हो तो कही ,ेसा तो नही के निसाब मजमून इस कोताही का जिम्मेदार ही इसी सूरत में निसाब मजमून मे नजरे सानी की जा सकती है। उसको बहतर बनाया जा सकता है। तालिब इल्मो की सबकिया मालूमात को ताजा कराया जा सकता है और साथ ही साथ आमूजशी मशाÛिल मे तालीब इल्म की रहनूमाई की जा सकती है। अन्दाजे कुर्द के मुखाले फीन भी है उनका कहना है कि तालीसी तहसील व तालीम वजाइफ को महज ,क हिस्सा है उनके नजदीक तालीब इल्म के शख्सी और समाजी पहल पर जौर देना बहुत जरूरी है। चुनाये यह भी तहसीफ पेदा हुआ के नही ,ेसा तो नही वो अपनाइत के जज्बे और खुदशनासी के अहसास से आदि है अन्दाजा, कुद्र उन खुबियों का अनदाजा लÛाने मे भी कारÛर निजाम ने ,क ,ेसे समाज की डाÛबेल डाली है। जिसकी बुनियाद मुसाबकत और नही हो पाती तहसील की बुनियाद चुके दरजा बन्दी पर होती है। इसलि, इसके तहत् महज थौडे से तालीब इल्म सरे फहरिस्त होते है। अकसरीयत बिछड ेजाती है और उनकी तहजीबी इक्तसादी और समाजी माजूरियो को दरखुरतना नही समझा जाता। मुखालेफीन का ,क Ûु्रप ,ेसा भी है जो बरतानवी मकतबे फिक्र से ताल्लुक रखता है। इस Ûिरोह का कहना है कि मकासिद पर मबनी तदरीस के तहत तोलबा की दरज जेल बातों की जांच होना चाहि,। 1- तोेलबा के इल्म मे किन-किन बातों का इजाफा हुआ। 2- तोलबा ने कौन-कौन सी नई महारतें सीखी। 3- तोलबा की समझ बुझ किन मालमात मे बढती है। 4- इन्सान फितरत और समाज के बारें मे तालीब इल्म के रवईये मे क्या तब्दीलियां हुई। 5- तोलबा ने किन-किन चीजो मे दिलचस्पी हासिल की जांच का तरीका:- इन तमाम मुबाहिस के बावजूद जबान का उस्ताद तहसील जबान की जांच के लि, माकूल तरीका इस्तेमाल कर सकता है अÛर शÛिर्दा को जो कुछ भी पढाया Ûया है , वह किस हद तक इसका इस्तेमाल कर पाये तो इसके लि, तहसीली जांच का परचा तैयार कर सकता है। अÛर पढाना शुरू करने से कहल इस बात की जांच करनी है के तालिब इल्म क्या जानते है। क्या नही तो इसके लि, ताशख्सी जांच पर परचा मुरतब कर सकते है और अÛर यह दरचाफत करना है कि शार्Ûिदो ने जो कुछ सीखा था उसमे से कितना भूल Ûये और कितना याद रखा हेै तो इसके लि, आदाई कजांच ली जा सकती है। उस्ताद तमाम आजामइशों को अपनी जरूरत और सहुलियत के लिहाज से इस्तेमाल कर सकता है। इन आजमाईस के जरिये तुलेबा की कारÛुर्दÛी की जांच की जा सकती और नताइज की बुनियाद पर जांच के परचे की मकबूलियत और नुताइज की सेहत का ताईन कर सकता है। जेरे नजर किताब प्राइमरी जमाअ से तालुक रखती है। जांच जबानी हो या तहरीरी दरजा जेल बातों का मलहूज रखना जरूरी है। 1- जांच के मकासिद की साफ-साफ वजाहत। 2- जांच की नोइयत के ,तबार से जांच की आलात का इस्तेमाल। 3- मकसूसी मकासिद के पेश नजर जांच की तैयारिया। 4- मयारी हालात के तहत् जांच का इस्तेमाल 5- आखुज नताईज मे अहतयाद 6- नताइज को बुनियाद पर जांच की तरजुमानीं उस्ताद अÛर इन मलहूजात के जहनेनसी कर ले तो जांच की तैयारी को मुरतब करने मे कोई दुश्वारी नही होÛी मिसाल के वोट पर अÛर तहसीली जाच मकसूद है तो तहसीली जांच के मकासिद का वाजे जौर पर बयान होना जरूरी हैं मकासिद के ताईन के बाद दीÛर पहलूओ का ताईन मजामीन के लि, मुखतालिब किस्म की जांच इस्तेमाल की जा सकती है। वाकफी मजामीन के लि, तहरीरी जांच और महारथी जांच के अÛली जांच और पढाई की जांच के लि, जबानी इम्तेहान का तरीका मुनासिब समझा जाता है। अन्तर - शि{ा.ा और शि{ाा 1- शि{ाा के उदद्ेश्य व्यापक होते है। ये सम्र्पू.ा पाठ्यक्रम से सम्बन्धित होते है। जबकि शि{ा.ा उद्देश्य सीमित होते है। इसका सम्बन्ध कालांश मे दिये Ûये विषय से होता है। 2- शै{िाक उदद्ेश्य दीर्धकालीन व शि{ा.ा उदद्ेश्य अल्पकालीन होते है। 3- शेै{िाक उदद्ेश्य सामाजिक होता है, जबकि शि{ा.ा उद्देश्य मनोविज्ञान हेाता है। 4- शै{िाक उदद्ेश्यो को सरलता से मापा नही जा सकता है, जबकि शि{ा.ा उदद्ेश्यो को सरलता से मापा जा सकता है। 5- शै{िाक उदद्ेश्यो को प्राप्त करने का आधार सभी विषय है, जबकि शि{ा.ा उददेश्य उसी विषय से होता है। जिसका आप अ?यापन करा रहे है। 6- शै{िाक उदद्ेश्य परिवर्तित होते रहते है जबकि शि{ा.ा उददे्श्य अपरिवर्तित होते है। शि{ा.ा उददे्श्य का महत्तव 1- शि{ा.ा के विकास 2- व्यवस्थित क्रम देते है। 3- इसके }ारा शि{ा.ा को यह आसानी रहती है कि अपने शि{ा.ा में अपने उददेश्य को किस सीमा तक प्राप्त कर रहा है। 4- शि{ा.ा बालमनोविज्ञान के आधार पर होना चाहि,। |
syed shaheen afroz Aashiqaan-e-Urdu ki aawaaz, Archives
|
tanqeedi_notes_part-11.pdf | |
File Size: | 2408 kb |
File Type: |
qasida nigari | |
File Size: | 1877 kb |
File Type: |
urdukaaasaanqaida.pdf | |
File Size: | 5951 kb |
File Type: |
Categories
All
Aligharh Tahreek Sir Syed-dabistan Dehli -lakhnaw-zadidat
Allama IQBAL
Grammer اصطلاحاتِ گرامر کی تعریفیں
Hali-sir Syed-hasrat-faiz-iqbal-meer-dard-abdul Haq-moin-ghalib
MEER NAIS
Mirza Ghalib Ke Bare Main
Nasar Nigaro Ko Khususiyat
Psychology
Shaheen Guide Urdu All Classes
TARIKH-E-ZUBAAN-E-URDU-MOHD HUSSAIN KHAN
URDU ADAB
Urdu Masnavi
URDU SHAYRO KI SHAYRANA KHUSUSIYAT
Urdu Zubaan
Urdu Zubaan Se Mutaliq Nazriyat
URRU Short Question Answer
اردو ہے جس کا نام
باب نمبر 1 کمپیوٹر کا تعارف(Introduction To Computer)
شاعری (Poetry)
ऊर्दू रसमूलखत